با مقصد انسان کا کردار
صہیب بن سنان الرومی اُن اصحابِ رسول میں سے ہیں جنہوں نے دور اوّل میں اسلام قبول کیا۔ اُن کی پیدائش موصل میں ہوئی۔ اُنہوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی۔ بوقت وفات اُن کی عمر تقریباً ستّر سال تھی۔ اُن سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں۔ اُن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أنا سابق العرب، وصہیب سابق الروم(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7288)۔
صہیب رومی کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے۔ مثلاً طبقات ابن سعد، تاریخ ابن عساکر، وغیرہ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومی ایک اونچے خاندان کے فرد تھے۔ پھر وہ مکہ میں تجارت کرنے لگے۔ انہوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی (کان صھیب قد ربح مالا وفیرا من تجارتہ)۔ سیر اعلام النبلاء، 3/210۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومی نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ اُن کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہوگئی۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان اُن کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے۔ اس کو لے کر ہم تم کومدینہ نہیں جانے دیں گے۔ صہیب رومی نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دوگے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس کے بعد صہیب رومی نے اپنا سارا مال اُن کے حوالہ کردیا(فجعل لہم مالہ أجمع)۔ الطبقات الکبریٰ لابن سعد، 3/227۔
اپنا مال قریش کے حوالہ کرکے صہیب رومی مدینہ کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کو مکہ کا پورا واقعہ بتایا۔ اُس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا أبا یحیٰ ربح البیع(أے ابو یحیٰ، تمہاری تجارت کامیاب رہی۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: ربح صھیب، ربح صھیب(صہیب کی تجارت کامیاب رہی، صہیب کی تجارت کامیاب رہی) البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر، 3/173-4۔
حضرت صہیب رومی کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بے حد اہم ہے۔ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہیے۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔
مذکورہ واقعہ پر غور کیجئے۔ حضرت صہیب رومی کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے ہر حال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہیے، خواہ اُس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت ِ اسلامی کا مرکز بن رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہیے کہ میں اس تاریخی مہم کو اُس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں۔
صہیب رومی نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقلمندی نہ ہوگی۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اُس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے۔
اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنّی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے، جیسا کہ قانونی عدالت میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا ہے عملی حل(practical solution)۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبارسے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ بامقصد انسان کا طریقہ۔
عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اُس کا حق کیا ہے۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس کے سوا اُس کا اورکوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس بامقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ، کوئی تمہارا کرتا لینا چاہے تو اُس کو اپنا چُغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ اُس نزاع کو ختم کردو، تاکہ مقصد کی طرف تمہارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔
اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں۔ مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربّانی حق سے محروم ہوجائے گا۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔ ایک، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے، اور دوسرا، آخرت کی خاطر دنیا کو۔
سوئزرلینڈ یورپ کے تقریبًا درمیان میں ہے اس کے چاروں طرف فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا واقع ہیں۔ وہ افغانستان کی طرح ایک محصور ملک (landlocked country) ہے۔ مگر سوئزرلینڈ دو رجدید کا ایک اعلٰی ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ہر طرف امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ جب کہ افغانستان برعکس طورپر ایک ایسا تباہ ملک بنا ہوا ہے جہاں خود افغانیوں کے لئے اتنی کم کشش ہے کہ وہ پہلی فرصت میں بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔اس فرق کا راز ایک لفظ میں استحکام (stability) ہے، اورسماجی اور سیاسی استحکام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔ وہ شعوری ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والا ایک واقعہ ہے۔