تعارفِ کتب
تربیت اولاد

ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ "کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سے عمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے" (المعجم الاوسط، حدیث نمبر3658)۔کہتے ہیں کہ گھر بچہ کا پہلا مدرسہ (اسکول) ہوتا ہے۔ جہاں وہ سب سے پہلے اپنے والدین، گھر کے ماحول اور گھر کے باقی افراد سے غیر رسمی طور پر بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور بچہ کی پرورش، نمو اور تربیت کا یہی وہ اہم ترین دور ہوتا ہے جس میں ہر سکھائی یا سیکھی گئی بات (چاہے وہ صحیح ہو یا غلط) بچہ کے دل ودماغ میں نقش ہو جاتی ہے اور عملی طور پر زندگی بھر وہ اس کو یاد رکھتا ہے۔

یعنی اگر گھر کا ماحول بہتر ہوگا تو بچہ کی پرورش اور تربیت بھی بہت صحیح انداز میں ہوگی۔ ظاہر ہے گھر کا ماحول والدین کی بہتر سوچ اور عمل سے ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر والدین کو خود تربیت کی ضرورت ہو تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر پائیں گے۔ اس لیے کہ تربیت یافتہ ہی دوسروں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔ اور یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ والدین کی اکثریت یہی سوچتی اور سمجھتی ہے کہ بچے کی تربیت اسکول، مدرسہ، کالج یا یونیورسٹی کرتی ہے۔ ان کی ساری امیدیں اور امنگیں ان رسمی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتی ہیں، وہ بچے کی پہلی درسگاہ (گھر) کوکوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ایسے لوگ پھر بچوں کے بگاڑ کے ذمہ دار بھی ان تعلیمی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔

تربیتِ اولاد کے موضوع پر بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں ان کو بے شک پڑھیں لیکن 80 صفحات پر مشتمل زیرِ تبصرہ کتاب "تربیت اولاد"  اس موضوع پر مختصر مگر ایک جامع اور شاندار کتاب ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصنف کی علمی و فکری شخصیت سے کیا جا سکتا ہے، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ نہ صرف سنجیدہ والدین کو بلکہ علم و دانش سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ فرد بدلے گا تو خاندان بدلیں گے اور اس طرح معاشرہ بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرے گا۔ یقیناً آپ احباب نے اس موضوع پراب تک کئی کتابیں پڑھی ہوں گی لیکن ایک موقع اس چھوٹی سی کتاب کو بھی دیجیے جو ہماری نسلوں کی بقا جیسے اہم مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔

 کتاب کےصفحہ 11 کا ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے:"آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طور پر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کر سکیں۔ وہ اپنے بچوں کو "ٹی وی کلچر" کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر" ۔ (طاہر حجازی، کراچی، پاکستان)۔


مذہب اور جدید چیلنج

موجودہ دور میں الحاد (Atheism) کا نظریہ پھیل رہا ہے۔ موجودہ الحاد سائنس اور فلسفے کے جلو میں نمودار ہوا ہے جس نے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ الحادی فکر سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ صراحتاً خدا کے وجود کے منکر نہیں بنے لیکن تشکیک (agnosticism) میں ضرور مبتلا ہوئے۔ موجودہ سائنسی علوم کا ارتقا جن شخصیات کے ہاتھوں ہوا وہ یا تو خدا کے وجود کے منکر تھے یا متشکک (agnostic)۔ لہٰذا وقت کی بڑی اہم ضرورت تھی کہ موجودہ الحادی فکر کو سائنس کی روشنی میں ردّ کیا جائے اور سائنس سے خدا کے وجود کا اثبات کیا جائے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور سائنسی مسلّمات کی روشنی میں الحادی فکر کا ردّ کیا۔ مولانا چونکہ انگریزی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے سائنسی اور الحادی مواد کا اصل سورس سے مطالعہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ الحاد کا ایسا ردّ سائنس کی روشنی میں کسی اور شخصیت نے نہیں کیا جیسا انہوں نے کیا۔اس ضمن میں ان کی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

1۔مذہب اور سائنس 2۔ مذہب اور جدید چیلنج،

3۔عقلیاتِ اسلام    4۔خدا کی دریافت: سائنسی حقائق کی روشنی میں۔

دینی مدارس کے طلبہ و علما کو ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org/books)پر بھی موجود ہیں ۔( ڈاکٹر فرخ نوید ،پاکستان)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom