اہل کتاب سے استفادہ
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16:43)۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
مفسرین نے اہل الذکر سے اہل کتاب مراد لیے ہیں،یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھنے والے ہیں۔ مگر توسیعی معنی کے اعتبار سے اس سے مراد موجودہ زمانے کے جدید تعلیم یافتہ یہودی اور مسیحی علما ہیں۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ اہل کتاب وہ باتیں جانیں گے، جن سے مسلم علما زیادہ باخبر نہ ہوں گے، اور ان کے لیے موقع ہوگا کہ وہ اہل کتاب کی جدید تحقیقات سے اپنے دینی علم میں اضافہ کریں۔
اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں یہوداور مسیحی قوموں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ اپنے قدیم وطن سے نکل کر ڈائسپورا (diaspora)میں چلے گئے۔پھر ان کو موقع ملا کہ وہ مغرب کے جدید علوم کو سیکھیں۔جدید علوم سے باخبر ہونے کی بنا پر انھوں نے سائنسی دریافتوں کو جانا،اور ان کو اپنی مذہبی کتابوں کی شرح کے لیے استعمال کیا۔مگر مسلم اہل علم اس سےبے خبر رہے ۔
مثلاًجدید سائنسی دریافت کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل فہم ہوگئیں۔ مگر یہ دریافتیں نیوٹرل انداز میں تھیں۔ چنانچہ یہودی علما اور عیسائی علما نے انطباقی انداز میں خدا کے وجود پر بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے:
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
خدا کی سائنسی شہادت پریہ کتاب یہودی اور عیسائی اہل علم کے مضامین پر مشتمل ہے۔
اسی طرح علم الانسان (Anthropology)اور علم الآثار (Archaeology)، وغیرہ جدید ڈسپلنز ہیں۔ ان کےذریعے جدید سائنسی اصول کی روشنی میں انسان کی قدیم تہذیب اور تاریخ، وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان ڈسپلنز کی روشنی میں یہودی اور عیسائی علما نےوہ تاریخی حقائق دریافت کیے ہیں، جو بائبل اور قرآن کے مشترک موضوعات تھے۔ مثلاً پیغمبر ابراہیم کا بیان، پیغمبر موسیٰ اور فرعون کاواقعہ، حضرت مسیح کی زندگی، یہاں تک کہ قرآن کے تاریخی استناد(historicity) پر بھی انھوں نے تحقیق کی، وغیرہ۔ ان تحقیقات کے ذریعے یہودی اور عیسائی علما نے مذہبی شخصیات اور واقعات کے تاریخی استناد کو ثابت کرنے کا کام کیا ہے۔ان یہودی اور مسیحی علما کی سائنسی تحقیقات کی بنا پر اب مذہبی تاریخ دیگر تاریخی حقیقتوں کی طرح ثابت شدہ حقیقتیں بن چکی ہیں۔
بائبل اور قرآن میں بنیادی موضوع مشترک ہیں، مثلا ًخدا کا وجود اور انبیاء کے حالات، وغیرہ۔اس بنا پر اہلِ کتاب کی یہ تحقیقات بالقوہ طور پر (potentially)اسلام کی تائید کا کام ہیں۔ یہ مسلم علما کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس پوٹنشل کو ایکچول بنائیں تاکہ اسلام کی صداقت جدید علمی معیار پر ثابت شدہ حقیقت بن کر انسانوں کے سامنے آسکے۔ فرانس کےڈاکٹر موریس بکائی (وفات1998ء) کی کتاب ـ"بائبل، قرآن اور سائنس " اس قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے:
The Bible, The Qur'an and Science by Dr. Maurice Bucaille
چوں کہ جدید علوم سے بے خبری کی بنا پر مسلم اہل علم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ اس لیےان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ یہودی اور کرشچن علما کی دریافتوں سے اسی طرح استفادہ کریں جس طرح وہ کوئی دوسرادینی علم حاصل کرتے ہیں۔تاکہ خدا کا دین وقت کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل ہوکر انسانوں کے مائنڈ کو ایڈریس (address) کرے۔
اعلان
سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی جانب سے انڈیا کےمدارس اسلاميه کو مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں هديے ميں بھيجي جارهي ہیں۔ اس مقصد كے تحت ادارہ کی جانب سے مسٹر آصف خان (9918578630) مدارس ميں جاتے ہیں، اور وهاں كي انتظامیہ سےاجازت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان مدارس کو کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ قارئين الرساله اور دوسرے خواهش مند حضرات سے گزارش هے كه وه آصف صاحب سے رابطہ قائم کرکے اس سلسلے ميں ان کا تعاون فرمائیں۔شکریہ