دعا کی حقیقت

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعا کچھ مقرر الفاظ کی تکرار کا نام ہے۔یعنی پراسرار نوعیت کے کچھ الفاظ ہیں، ان کو اگر صحیح تلفظ کے ساتھ انسان دہرا لے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ دعا اسپرٹ کا نام ہے، جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ بندے کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہ دراصل اسپرٹ ہے، جو کسی دعاکو قابلِ قبول دعا بناتی ہے۔ دعا کے الفاظ داعی کی قلبی کیفیت کو بتاتے ہیں، وہ محض زبانی طور پر تلفظ کلمات کے ہم معنی نہیں ۔

دعا انسان کے داخلی احساس کالفظی اظہار ہے۔ دعا دراصل اس بات کا نام ہے کہخدا کی کائنات میں وہ بالکل بےبس ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان دریافت کرے کہ خدا قادر مطلق ہے، اور وہ عاجز مطلق۔خدا سب کچھ ہے، اور وہ بے کچھ ۔ اگر خدا نہ دے تو اس کو کوئی چیز ملنے والی نہیں۔ یعنی وہ خدا کے مقابلے میں اپنی حالتِ عجز کو دریافت کرے۔ اور یہ دریافت انسان کے لیے اس کے وجودکا حصہ بن جائے۔جب بندہ کو یہ بات دریافت کے درجے میں معلوم ہوجائے کہ اس کو وہی مل سکتا ہے، جس چیزکو اس کا خدا اسے دینے پر راضی ہوجائے۔ اس وقت بندہ کے اندر ایک بے پناہ تڑپ پیدا ہوتی ہے، اور وہ اپنی زبان سے اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں، اسی کا نام دعا ہے۔

ایک روایت کے مطابق، وہ دعا، دعا نہیں جو غفلت والے دل (قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ) سے مانگی جائے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3479)۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ بظاہر زبان سےدعا کے الفاظ تو دہرائے ۔ لیکن ا س کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ دعا وہ ہے، جو سچی اسپرٹ کے ساتھ مانگی جائے، جس میں آدمی کی شخصیت اور دعا دونوں ایک دوسرے کے ترجمان بن گئے ہوں۔ آدمی کی شخصیت زبان حال سے انسان کی ترجمانی کرے، اور دعا زبان قال سے انسان کی ترجمانی کرے۔ دعا اس کی شخصیت ہو، اور اس کی شخصیت اس کی دعا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom