مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح

12

حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: مجھ كو حكم ديا گيا هے كه ميں لوگوں سے قتال كروں، يهاں تك كه وه اس كي گواهي ديں كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں اور وه نماز قائم كريں اور وه زكاة ادا كريں۔ پھر جب وه ايسا كريں تو وه اپنے خون اور اپنے مال كو مجھ سے بچاليں گے، سوااسلامي حق كے، ان كا حساب الله كے ذمه هے۔ (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر25، صحیح مسلم، حدیث نمبر22)

اس حدیث میں وہی بات بتائی گئی ہے، جو سورہ التوبہ کی ابتدائی آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔اس حديث ميں لوگوں (الناس) سے مراد قديم عرب كے وه مشركين هيں جو پيغمبر اسلام صلي الله علیہ وسلم كے معاصر تھے۔ ان كے اوپر براهِ راست پيغمبر كے ذريعه اتمام حجت كيا گيا تھا۔ اس کے باوجود وہ لوگ دشمنی پر اڑے ہوئے تھے۔ اس لیے قانونِ الٰهي كے مطابق، ان كے لیے دو ميں سے ايك كا انتخاب تھا —  وه يا تو اسلام قبول كريں يا قتال کے لیےتیار ہو جائيں۔ مگر ابتدائي مخالفت كے بعد انهوں نے اسلام قبول كرليا، اس لیے ان پر مذكوره قانونِ الٰهي كے نفاذ كي ضرورت پيش نهيں آئي۔

پيغمبر اسلام كي معاصر قوم كے سوا دوسري قوموں كے لیے ايسا قانون نهيں۔ دوسري قوموں كے لیے صرف پر امن دعوت هے اور بس۔ پيغمبر كے بعد اب كسي بھي قوم سے اس قسم كا معامله نهيں كيا جائے گا۔

13

انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جو هماري طرح نماز پڑھے اور همارے قبله كو اپنا قبله بنائے۔ اور همارے ذبيحه كو كھائے تو وه مسلمان هے جس كے لیے الله اور اس كے رسول كا ذمه هے۔ تو تم اس كے ذمه كو نه توڑو (صحیح البخاري، حدیث نمبر391)۔

اس حديث ميں ذمه سے مراد وه امن يا امان هے جو ايك مسلم معاشره ميں كسي كو ديا جاتا هے۔ ايك شخص اگر مسلمان هونے كا دعوي كرے اور اسلام كے ظاهري احكام پر عمل كرے تو اس كو مسلم معاشره كے ايك فرد كي حيثيت سے قبول كرليا جائے گا۔ كسي كو يه حق حاصل نهيں هوگا كه وه اس كی مخفي نيت كي بنياد پر اس كے خلاف كوئي حكم لگائے اور نه كسي كو يه حق هوگا كه وه كسي شخص كو بطور مسلمان قبول كرنے كے لیے مذكوره شرطوں كے سوا كسي اور عملي شرط كا مطالبه كرے ۔

14

ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس ايك اعرابي آيا۔ اس نے كها كه مجھے ايسا عمل بتائيے كه جب ميں اس پر عمل كروں تو ميں جنت ميں چلا جاؤں۔ آپ نے فرمايا كه تم الله كي عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهراؤ اور تم فرض نماز كو قائم كرو اور فرض زكاة ادا كرو۔ اور تم رمضان كے روزے ركھو۔ اعرابي نےكها كه اس ذات كي قسم جس كے قبضه ميں ميري جان هے ميں ان پر نه كسي چيز كو بڑھاؤں گا اور نه كسي چيز كو گھٹاؤں گا۔ جب وه واپس هونے كو هوا تو رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه جو آدمي ايك جنتي انسان كو ديكھنے كي خوشي حاصل كرنا چاهے وه اس اعرابي كو ديكھ لے۔(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر1397، صحیح مسلم، حدیث نمبر14)

اس حديث ميں جو اعمال بتائے گئے هيں وه اسلام كے بنيادي اعمال هيں۔ يه اعمال جس آدمي كے وجود ميں حقيقي طورپر شامل هوجائيں وه اس كي پوري زندگي ميں سما جائيں گے، وه اس كي پوري شخصيت كو الله كے رنگ ميں رنگ ديں گے۔

15

سفيان بن عبدالله ثقفي رضي الله عنه بتاتےهيں كه ميں نے كها كه اے خدا كے رسول مجھے اسلام كے بارے ميں ايسي بات بتائيے كه پھرميں اس كے بارے ميں کسی اور سے نه پوچھوں۔ آپ نے فرمايا كه تم كهو كه ميں الله پر ايمان لايا، پھر تم اس پر جم جاؤ (صحیح مسلم، حدیث نمبر38)۔

الله پر ايمان لانا كوئي ساده بات نهيں۔ يه اس بات كا اقرار هے كه ميں نے شعوري فيصله كے تحت الله كو اپنا رب ومعبود بنا ليا۔ اس قسم كا شعوري فيصله پورے معنوں میں آدمي كے فكر وعمل كے لیے ايك كامل رهنما بن جاتاهے۔ وه زندگي كے هر موڑ پر آدمي سے تقاضا كرتاهے كه وه كيا كرے اور كيا نه كرے۔ ايسے تمام مواقع پر اپنے فيصله كے اوپر پوري طرح قائم رهنا، اسي كا نام مذكوره حديث میں استقامت هے۔ اور جنت انهيں لوگوں كے لیے هے جو ايمان كے بعد عملي استقامت كا ثبوت ديں۔

16

طلحه بن عبيد الله رضي الله عنه كهتے هيں كه نجد كا ايك شخص رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آيا، اس کے بال بكھرے هوئے تھے۔ (وہ دور تھا) اس لیےهم اس كي دھیمی آواز سن رهے تھے۔ مگر يه نهيں سمجھتے تھے كه وه كيا كهه رها هے۔ يهاں تك كه وه رسول الله صلي الله عليه وسلم كے قريب آگيا۔ تو وه اسلام كے بارےميں پوچھ رها تھا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه پانچ وقت كي نمازيں دن ميں اور رات ميں۔ اس نے كها كه كيا ميرے اوپر ان كے سوا بھي هے۔ آپ نے فرمايا كه نهيں، الا يه كه تم نفل نماز پڑھو۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه: اور رمضان كے مهينے كے روزے ركھنا۔ اس نے كها كه كيا ميرےاوپر اس كے سوا بھي هے۔ آپ نے فرمايا نهيں، إلا يه كه تم نفل روزے ركھو۔ راوي كهتے هيں كه پھر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے اس سے زكاة كے بارے ميں كها۔ اس نے كها كه كياميرے اوپر اس كے سوا بھي هے۔ آپ نے فرمايا كه نهيں،إلا يه كه تم نفل صدقه كرو۔ راوي كهتے هيں كه اس كے بعد وه آدمي لوٹا اور وه يه كهه رها تھا كه خدا كي قسم ميں اس پر نه زياده كروں گا اور نه اس پر كمي كرونگا۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه يه آدمي كامياب هوگا، اگر اس نے سچ كها۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر46،صحیح مسلم، حدیث نمبر11)

اسلام ميں متعين كچھ عبادتي فرائض هيں۔ آدمي اگر سچا عبادت گزاربن جائے تو وه فرض كے سوا زائد عبادت بھي كرنے لگتا هے جس كو شريعت ميں نفل كهاگيا هے۔ اسي طرح جب آدمي كي زندگي ميں عبادت كي روح پوري طرح پيدا هوجائے تو اس كے لازمي نتيجه كے طورپر ايسا هوتاهے كه اخلاق ومعاملات ميں بھي اس كا اثر ظاهر هونے لگتا هے۔ خدا كي نسبت سے وه عابد بن جاتاهے، اور بندوں كي نسبت سے عادل۔

17

عبد الله بن عباس رضي الله عنه كهتے هيں كه عبد القيس كا وفد جب رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آيا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه تم كون لوگ هو۔ انهوں نے كها كه (ہم )ربيعه( قبیلہ سے ہیں)۔ آپ نے فرمايا كه تم لوگ اچھے آئے كه نه رسوا هوئے اور نه شرمنده هوئے۔ انهوں نے كها كه اے خدا كے رسول، هم آپ كے پاس صرف حرام مهينے ميں هي آسكتے هيں۔ همارے اور آپ كے درميان (مخالف) قبيله مضر آباد هے۔ پس آپ هميں کچھ بنیادی رہنمائی کرديں جس سے هم ان لوگوں كو باخبر كرديں جو همارے  پيچھے هيں۔ اور اس كے ذريعه هم جنت ميں داخل هوجائيں۔ انهوں نے آپ سے مشروبات كے بارے  ميں پوچھا ۔ آپ نے ان كو چار چيزوں كا حكم ديا اور چار چيزوں سے منع فرمايا۔ آپ نے ان كو ايك الله پر ايمان ركھنے كا حكم ديا۔ آپ نے فرمايا كه كيا تم جانتےهو كه ايك الله پر ايمان ركھنا كيا هے۔ انهوں نے كہا كه الله اور اس كا رسول زياده جانتےهيں۔ آپ نے فرمايا كه يه گواهي دينا كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں۔ اور نماز قائم كرنا اور زكاة ادا كرنا اور رمضان كے روزے ركھنا اور يه كه تم مال غنيمت ميں سے پانچواں حصه ادا كرو۔ اور آپ نے ان كو چار چيزوں سے منع فرمايا: ٹھليا (الحنتم) سے اور توبني (الدباء) سے اور نقير سے اور تاركول والے پيالے (المزفت) سے۔ پھر آپ نے فرمايا كه ان باتوں كو ياد ركھو اورتمهارے پيچھے جو لوگ هيں ان كو بتادو (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر53،صحیح مسلم، حدیث نمبر17)

مدينه ميں جب رسول الله صلى الله عليه وسلم كو بااقتدار حيثيت حاصل هوگئي تو آپ نے مختلف عرب قبائل كے پاس تبليغي وفود بھيجنا شروع كیا۔ اس كے بعديه ہوا کہ عرب قبائل مدينه آكر آپ كي اطاعت قبول كرنے لگے۔ يهاں تك كه عرب كے تمام قبائل مدينه كي رياست كي ماتحتي ميں آگئے۔ اس حديث ميں ايك اصول يه ملتا هے كه ايسے حالات ميں جب كه آدمي كے سامنے دو ميں سے ايك كا انتخاب هو — وه يا تو اپني مرضي سے ماتحتي قبول كرلے ورنه اُس كو رسوائي اور شرمندگي كے ساتھ ماتحتي  كو قبول كرنا هوگا۔ ايسي حالت ميں صحيح طريقه يه هے كه باعزت صلح كو اختيار كرليا جائے اور بےنتیجہ جنگ كا طريقه چھوڑ دياجائے۔

نوٹ: حديث ميں قديم عرب كے چار برتنوں كا ذكر هے جو شراب بنانے اور پينے كے لیے استعمال كیے جاتے تھے۔ "حنتم "شراب كي ٹھليا۔ "دُباء" اندر سے كھوكھلا كيا هوا كدو جو جگ كي طرح استعمال كيا جاتا تھا۔" نقير" درخت كي جڑ كواندر سے كھوكھلا كر كے اس ميں شراب ركھتے تھے۔ "مزفت" تاركول سے بنا هوا شراب كا برتن— رسول الله صلى الله عليه وسلم نے حرام پر روك لگانے كے ساتھ اسباب حرام پر بھي روك لگا دي۔

18

عبادة بن الصامت رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا— اس وقت صحابه كي ايك جماعت آپ كے پاس تھي— مجھ سے اس پر بيعت كرو كه تم الله كے ساتھ كسي كو شريك نہ كرو گے۔ اور تم چوري نه كروگے اور تم زنا نهيں كروگے اور تم اپني اولاد كو قتل نهيں كروگے اور تم كسي پر جھوٹا بهتان نه لگاؤگے اور تم معروف ميں نافرماني نه كروگے۔ پھر تم ميں سے جو شخص اس عهد كو پورا كرےتو اس كا اجر الله كے ذمه هے۔ تم ميں سے کوئی شخص ان ميں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرلے اور وه دنيا ميں سزا پالے تو وه اس كے لیے كفاره هے۔اور کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، پھر الله اس كي پرده پوشي كرے تو اس كا معامله الله كے اوپر هے، چاهے وه اس كو معاف كرے يا وه اس كو سزا دے۔ پھر هم نے آپ سے اس پر بيعت كي۔(متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر18، صحیح مسلم، حدیث نمبر41)

اسلام ميں جن چيزوں سے منع كياگيا هے ان سے اپنے آپ كو دور ركھنا لازمي طورپر ضروري هے۔ اگر كبھي كوئي شخص نفس سے مغلوب هوكر وقتي طورپر گناه ميں مبتلا هوجائے تو اس كو فوراً توبه كرنا چاهیے۔ ايسے آدمي كو كبھي دنيا هي میں كوئي تكليف دے كر اس كے گناه كو دھودياجاتا هےاور كبھي اس پر پرده ڈال دياجاتا هے۔ ايسي حالت ميں يه الله كےاوپر هوتا هے كه وه اپنے بندے سے آخرت ميں كس طرح كا معامله فرمائے۔ يه وقتي طورپر گناه ميں مبتلا هونے كا معامله هے۔ گناه ميں مستقل طورپر مبتلا رهنا اور توبه كے بغير مرجانا قابل معافي نهيں۔

19

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه: الله تعالي كا ارشاد هے كه انسان نے مجھے جھٹلايا حالانكه يه اسے سزاوار نه تھا۔ اور اس نے مجھے گالي دي حالاں كه يه اس كے لیے سزاوار نه تھا۔ پس اس كا مجھے جھٹلانا يه هے كه وه كهتا هے كه خدا مجھے دوباره نه بنا سكے گا جس طرح اس نے مجھے پهلي بار بنايا۔ حالانكه دوسری بار پیدا کرناپہلي بار پیداکرنے سے زياده آسان ہے۔ اور اس كا مجھے گالي دينا يه هے كه وه كهتا هے كه الله نے اپنا بيٹا بنايا هے۔ حالانكه ميں اكيلا اور بےنياز هوں جس نے نه جنا ور نه وه جنا گيا اور نه كوئي اس كے برابر هے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4974)۔

جب كوئي شخص خدا كے وجود پر شبه كرتا هے يا وه اس كي صفات كمال كا انكار كرتاهے تو اپني حقيقت كے اعتبار سے يه ايك جھوٹ هوتا هے۔ خدا كے تخليقي مظاهر خدا كے وجود كا يقيني ثبوت هيں۔ اسي طرح كائنات كي معنويت خدا كي صفات كمال پر گواهي ديتي هے۔ ايسي حالت ميں جو آدمي خداكو نه پائے، جو خدا كي تخليق ميں خدا كے جلووں كو نه ديكھے وه يا تو اندھا هے يا وه جان بوجھ كر سركشي كررها هے۔

20

ايك اور روايت ميں عبدالله بن عباس رضي الله تعالى عنه كهتے هيں كه (الله كا يه ارشاد هے كه) انسان كا مجھ كو گالي دينا يه هے كه وه كهتا هے كه كوئي ميرا بيٹا هے۔ حالانكه ميں اس سے پاك هوں كه ميں كسي كو اپني بيوي يا اپنا بيٹا بناؤں (صحیح البخاري، حدیث نمبر4482)۔

كسي انسان كے لیے يه كها جائے كه اس كي ايك بيوي يا اس كا ايك بيٹا هے تو يه صرف ايك واقعه كا اظهارهوگا۔ ليكن اس قسم كي بات خداوندِ عالم كے لیے سخت ترين بهتان هے۔ خدا اس سے بہت بلند هے كه اس كي كوئي بيوي يا اس كا كوئي بيٹا هو۔ انسان ايك نامكمل مخلوق هے۔ اس كو اپني تكميل كے لیے بيوي اور بيٹے كي ضرورت هوتی هے مگر خدا اپني ذات ميں آخري حد تك ايك مكمل وجود هے۔ ايك كامل اور مكمل خدا هي موجوده عظيم كائنات كو پيدا كرسكتا هے۔

ايسي حالت ميں كسي كو خدا كا بيٹا بتانا خدا كے رتبه كو گھٹانا (degradation)هے۔ اور اس قسم كا قول بلاشبه بدترين قسم كا سب ّوشتم هے۔

21

ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه الله تعالي كا ارشاد هے۔ انسان مجھ كو تكليف پهنچاتا هے۔ وه زمانه كو گالي ديتا هے۔ حالانكه ميں هي زمانه هوں، ميرے هاتھ ميں هے معامله، ميں رات اور دن كو پلٹتا هوں (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر4826،صحیح مسلم، حدیث نمبر2246)

انسان پر جب كوئي مصيبت آتي هے تو وه اس كو زمانه كا نتيجه سمجھ كر زمانه كو برا بھلا كهنے لگتا هے۔ مگر اس قسم كے كلمات زمانه پر نهيں بلكه خدا پر پڑتے هيں كيوں كه زمانه كوئي آزاد اور بااختيار چيز نهيں۔ وه خدا كے حكم كے تابع هے۔ يه دراصل خدا هے جو اپنے فيصله كو احوال زمانه كي صورت ميں ظاهر كرتاهے۔ ايسي حالت ميں آدمي كو چاهئے كه وه هر موقع پر خدا كي طرف رجوع كرے نه كه زمانه كو ذمه دار سمجھ كر شكايت كرے۔

22

ابو موسي اشعري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه: تكليف ده بات كو سن كر اس پر صبر كرنے والا خدا سے زياده اور كوئي نهيں۔ لوگ خدا كي طرف بيٹے كي نسبت كرتے هيں۔ مگر وه انهيں معاف كرتا هے اور انهيں رزق ديتا رهتا هے(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر2099، صحیح مسلم، حدیث نمبر2804)

انسان اگر كسي تكليف ده بات پر صبر كرتا هے تو يه اس كي مجبوري هے۔ كيوں كه انسان كا اختيار بهت محدود هے۔ محدود اختيار كي بنا پر اس كے لیے يه موقع نهيں كه وه كسي سے بھر پور انتقام لے  سكے۔ ليكن خدا كامل اور لا محدود اختيار كا مالك هے۔ اس كے باوجود وه اپني مرضي كے خلاف باتوں كو ديكھتا هے اور اس پر صبر كرتا هے۔ اس كا سبب خود خدا كا قائم كرده قانوني امتحان هے۔ خدا هر ايك كو آزادي دے كر اس كا امتحان لےرهاهے۔ جب تك امتحان كي مدت ختم نه هو، يه آزادي بھي ختم هونے والي نهيں۔

23

معاذ بن جبل رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں ايك گدھے پر رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پيچھے سوار تھا۔ ميرے اور آپ كے درميان كجاوه كے پچھلے حصه كي سوا اور كوئي چيز حائل نه تھي۔ آپ نے فرمايا كه اے معاذ، كيا تم جانتےهو كه الله كا حق اپنے بندوں كے اوپر كيا هے۔ اور بندوں كا حق الله كے اوپر كيا هے۔

ميں نےكها كه الله اور اس كا رسول زياده بهتر جانتے هيں۔آپ نے فرمايا كه الله كا حق اپنے بندوں پر يه هے كه وه اس كي عبادت كريںاور اس كے ساتھ كسي كو شريك نه ٹھهرائيں۔ اور بندوں كا حق الله كے اوپر يه هے كه وه اس شخص كو عذاب نه دے جو اس كے ساتھ كسي چيز كو شريك نه ٹھهراتا هو۔ پھر ميں نے كها كه اے خدا كے رسول كيا ميں لوگوں كو اس كي خوش خبري نه دے دوں۔ آپ نے فرمايا كه لوگوں كو خوش خبري نه دو ورنه لوگ اسي پر بھروسه كرليں گے۔(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر 2856، صحیح مسلم، حدیث نمبر30)

نجات كا دارومدار هر ايك كے لیے شرك کے انکار اور توحيد کے اقرارپر هے۔ مگر اس كا مطلب صرف زبان سے كچھ الفاظ كي تكرار نهيں هے بلكه اس سے مراد وه فكري انقلاب هے جو آدمي كي پوري شخصيت كو بدل ديتا هے۔ آدمي اندر سے لے كر باهر تك اور قول سے لے كر عمل تك ايك رباني رنگ ميں رنگ جاتاهے۔ يه تبديلي اتني گهري هوتي هے كه اگر اتفاقي سبب كے تحت وه اپنے عقيده كے خلاف كوئي غلطي كر بيٹھے تو اس كي پوري شخصيت آخري حد تك تڑپ اٹھتي هے۔ يهاں تك كه يه غلطي اس كے لیے مزيد اضافے كے ساتھ خدا كي طرف متوجه هونے كا ذريعه بن جاتي هے۔

اس حديث ميں بھروسه كرنے (فَيَتَّكِلُوا) كا مطلب يه هے كه جو لوگ باتوں كو زياده گهرائي كے ساتھ نهيں سمجھتے وه اس كو صرف رسمي عقيده كے معني ميں لے ليں گے، اور كچھ الفاظ كو اپني زبان سے دهرا كر يه سمجھيں گے كه انھوں نے آخرت ميں اپنے آپ كو جنت كا مستحق بنا لياهے۔ حالانكه حديث كا يه مطلب هر گز نهيں۔

24

انس بن مالك رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كجاوه پر تھے اور معاذ بن جبل ان كے پيچھے بيٹھے هوئے تھے۔ آپ نے فرمايا كه اے معاذ، انھوں نے كها: ميں حاضر هوں خدمت ميں ۔ آپ نے فرمايا كه اے معاذ، انھوں نے كها ميں حاضر هوں خدمت ميں۔ آپ نے تين بار اس طرح فرمايا۔ پھر آپ نے فرمايا كه هر وه شخص جو سچے دل سے گواهي دے كه الله كے سوا كوئي اله نهيں اور يه كه محمد الله كے رسول هيں، الله ضرور آگ کو اس پر حرام كر دے گا۔ انھوں نے كها اے خدا كے رسول، كيا ميں لوگوں كو اس كي خبر نه دے دوں كه وه خوش هوجائيں۔ آپ نے فرمايا كه پھر وه بھروسه كرليں گے۔ پھر معاذ نے اپني موت كے وقت اس كي خبر دي، گناه سے بچنے كے لیے (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر128، صحیح مسلم، حدیث نمبر 32)۔

ايك سچائي جب كسي آدمي كے دل ودماغ ميں آخري حد تك اتر جائے، وه اس كے يقين واعتماد كا لازمي حصه بن جائے، اس وقت جو كلمهٔ اعتراف آدمي كي زبان سے نكلتا هے اسي كا نام گواهي (شهادت) هے۔ جو آدمي اس طرح كمال درجه ميں خدا اور رسول كي معرفت حاصل كرلے اور پھر اس كا سچا اعتراف كرے تو يه اعتراف اس كي پوري شخصيت كا نمائنده هوتاهے۔ ايسا اعتراف الله كي نظر ميں اتنا قيمتي هوتا هے كه اس كے اوپر جهنم كي آگ حرام كردي جاتي هے۔

جو آدمي شهات كےدرجه ميں پهنچ كر خدا كي خدائي كا اعتراف كرے، اس كا پورا وجود معرفت رب ميں ڈھل جاتا هے۔ وه ايك ایسا مزکیّٰ شخصيت (purified soul) بن جاتا هے جو جهنم كي دسترس سے باهر هوچكا هو۔

25

ابو ذر رضي الله عنه كهتےهيں كه ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس آيا۔ اس وقت آپ كے اوپر ايك سفيد كپڑا تھا اور آپ سو رهے تھے۔ پھر ميں آپ كے پاس آيا تو آپ جاگ چكے تھے۔ آپ نے فرمايا كه كوئي بھي بنده جو يه كهے كه الله كے سوا كوئي معبود نهيں، پھر وه اسي پر مر جائے تو وه ضرور جنت ميں داخل هوگا۔ ميں نے كها، اگر چه اس نے زناکیا اگر چه اس نے چوري كی۔ آپ نے فرمايا: اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی۔ ميں نے كها،اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی۔ آپ نے فرمايا: اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی۔ ميں نے كها، اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی۔ آپ نے فرمايا: اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی، ابوذر كي ناپسنديدگي كے باوجود۔ اور ابو ذر جب بھي اس حديث كو بيان كرتے تو اس كے ساتھ يه بھي كهتے كه ابو ذر كي ناپسنديدگي كے باوجود۔ (متفق عليه:صحیح البخاری، حدیث نمبر5827، صحیح مسلم، حدیث نمبر94)

كلمهٔ توحيد كےاقرار سے مراد وه اقرار هے جو آدمي كي پوري شخصيت كا نمائنده بن كر ظاهر هو، جس ميں آدمي كا پورا وجود شامل هو۔ ايسے اقرار كا مطلب يه هوتا هے كه آدمي كا فكري اور روحاني وجود مكمل طورپر توحيد كي حقيقت ميں ڈھل گيا هے۔ يهي وه رباني انسان هے جو آخرت ميں جنت كا مستحق قرار پائے گا۔

حديث ميں وإن زنى وإن سرق (اگر چه اس نے زناکیا ،اگر چه اس نے چوري كی)كا لفظ هے، نه كه وإن يزني وإن يسرق (اگرچه وه زنا كرتا رہے، اگرچه وه چوري كرتا رہے)كا لفظ۔ يعني اس كا مطلب يه نهيں هے كه آدمي ايمان لانے كے بعد بھي مستقل طورپر زنا اور سرقه ميں مبتلا رهے۔ بلكه اس كا مطلب يه هے كه اتفاقي طور پر وقتي سبب سے كبھي اس قسم كا گناه سرزد هوجائے۔ اور پھر اس پر غلطي كا شديداحساس طاري هو اور پھر وه توبه اور گريهٔ ندامت سے اپنے آپ كو پاك كرلے۔ اس حديث ميں خدا سے ڈرنے والے انسان كا ذكر هے، اور جس انسان كے دل ميں خدا كا ڈر سمايا هو وه اگر كبھي جذبات سے مغلوب هو كر كوئي گناه كرلے تو اس كے بعد اتني شدت كے ساتھ اس كے اوپر گناه كا احساس طاري هوتا هے كه وه پهلے سے بھي زياده پاك انسان بن جاتاهے۔

26

عباده بن الصامت رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: جو شخص گواهي دے كه الله كے سوا كوئي اله نهيں اور يه كه محمد اس كے بنده اور اس كے رسول هيں۔ اور يه كه عيسي الله كے بندے اور اس كے رسول هيں اور وه اس كي بندي كے بيٹے هيں اور وه اس كا كلمه هے جو اس نے مريم كي طرف القاء كيا۔ اور وه اس كي طرف سے روح هيں اور يه كه جنت اور جهنم حق هے۔ الله ايسے آدمي كو جنت ميں داخل كرے گا، اس عمل كے مطابق جس پر وه تھا (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر 3435، صحیح مسلم، حدیث نمبر28)۔

ايمان دراصل معرفت كا نام هے۔ يعني آدمي كو خدائي حقيقتوں كی شعوري دريافت حاصل هو۔ اور پھر وه اس كو بھر پور طور پر اپني زندگي ميں شامل كرلے۔ ايسے هي انسان كو آخرت كي ابدي جنتوں ميں داخلہ ملے گا۔

27

عمرو بن العاص رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں رسول الله صلى الله عليه وسلم كے پاس آيا ۔ ميں نے كها كه اپنا هاتھ بڑھائيے تاكه ميں آپ سے بيعت كروں۔ آپ نے اپنا داياں هاتھ بڑھايا۔ مگر ميں نے اپنا هاتھ سميٹ ليا۔ آپ نے كها كه اے عمرو، يه كيا ۔ميں نے كها كه ميں شرط لگانا چاهتا هوں۔ آپ نے فرمايا : كيا شرط لگانا چاهتے هو۔ ميں نے كها:يه كه مجھے بخش ديا جائے۔ آپ نے فرمايا كه اے عمرو، كياتم نهيں جانتے كه اسلام پچھلے كیے كو ڈھا ديتا هے۔اور هجرت اپنے سے پهلے كیے كو ڈھا ديتي هے۔ اورحج اس سے پهلے كے كیے كو ڈھاديتا هے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر121)

ايمان انساني شخصيت ميں مكمل تبديلي كا نام هے۔ حقيقي ايمان كے بعد كوئي آدمي اپنی شخصیت كے اعتبار سے وه نهيں رهتا جو كه وه اس سے پهلے تھا۔ یہ تبدیلی اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے۔ایمان کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے، یعنی اللہ کا رنگ۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ انسان کے ذہنی ارتقا میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت جاگتی ہے۔ اب اس کا ذکر رب العالمین کا ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے— خدا كے يهاں بعداز ايمان حالت كا اعتبار هے، نه كه قبل از ايمان حالت كا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom