چیلنج کی صورتِ حال

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں بہت سےلوگ دھوکےمیں رہتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔

اس حدیث میں ایک قانون فطرت کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کو چیلنج کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جب آرام و راحت کی صورتِ حال پیش آجائے تو ایسا انسان جمود (stagnation) کا شکار ہوجاتاہے۔ ایسا انسان فکری طور پر ڈل (dull) ہوجاتا ہے۔اس کے بر خلاف، جب انسان چیلنج کی صورتِ حال میں رہتا ہے تو اس کی سوئی ہوئی فطری صلاحیتیں بیداررہتی ہیں۔ چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سےایک عام انسان سپر انسان (superman)بن جاتاہے۔اس کےاندر ناموافق صورتِ حال کو مثبت طور پر مینج کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسا انسان ہر عسر کے اندر یسر تلاش کرلیتا ہے۔

برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975ء) نے12 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری دنیا کی 19 عظیم تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ ا س جائزے میں اس نے بتایا ہے کہ تاریخ میں فطرت کا ایک نظام قائم ہے۔ جس کو اس نے چیلنج- رسپانس میکینزم کانام دیا ہے۔ یعنی حالات کے تحت ایک چیلنج پیش آتا ہے۔ اس کے بعد قوم کے اندر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہلچل اس قوم کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ترقی یافتہ قوم ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے۔ یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا ہے۔ یہ معاملہ قوم کا بھی ہے، اور فرد کا بھی۔

اس کوراقم الحروف کے ایک تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا کہ محمد کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اس کو میں نے مثبت چیلنج کے طور پر لیا۔ اس طرح مجھےیہ موقع ملا کہ میں وہ کتاب لکھوں جس کا نام اسلام دورِ جدید کا خالق ہے۔

اسی طرح ایک مثال یہ بھی ہے کہ میرے پاس ایک نوجوان عالم دین رہتے تھے۔ ان کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ میرے اوپر خوب تنقیدیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے جاب کے لیے یو اے ای (UAE)چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: انا ناقد اکبر ناقدٍفي الہند (میں ہندستان کے سب سے بڑے ناقد پر نقد کرنے والا ہوں) ۔ان کی تنقید وں سےمیرے ذہن کے بند گوشے کھلتے تھے، نئی نئی باتیں ذہن میں آتی تھیں، وغیرہ۔

 چیلنج کی صورتِ حال انسانی نیچرکے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، آرام و راحت کا راستہ انسان کی نیچرکےمطابق نہیں ہے۔میں ایک مرتبہ احمد آباد کے سفر میں ایک فیکٹری دیکھنے گیا۔ نئی امپورٹڈ مشینیں اس فیکٹری میں لگی ہوئی تھیں۔ فیکٹری کے نوجوان مالک نے بات چیت کے دوران ایک جملہ بولا تھا:اپنی تو لیمیٹشن (limitation)آجاتی ہیں مینجمنٹ سائڈ پر۔ اس جملے نے میرےمائنڈ کو ٹریگر کیا۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح ہر انسان کے لیے اس کی ترقی کی لیمیٹشن (limitation) آجاتی ہے ، جب اس کے لیے چیلنج کا ماحول باقی نہ رہے۔

کسی انسان کی زندگی میں چیلنج کا ماحول کیسے پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان دو صفتوںیعنی کامل سادگی اور مکمل قناعت کا حامل ہو، اس کی زندگی میں یہ انقلاب آتا ہے۔ مکمل سادگی کامل عزم کی علامت ہے۔یہ ایک بامقصد زندگی کی علامت ہے۔ عدم قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر گہرائی کا فقدان ہے، اور قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آدمی گہری غور وفکر کا مالک ہے۔ اس بنا پروہ مادی چیزوں کے بجائے معنوی چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کو پانے کا طریقہ  ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317)۔یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔ دوسرے الفاظ میں ، وہ غیرمتعلق چیزوں کو ترک کردے تاکہ وہ سادہ زندگی ، اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرسکے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom