مولانا کے بعد
آج بتاریخ 4اکتوبر 2022ء کومولانا وحیدالدین خاں صاحب کی رہائش گاہ ( نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچا۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو مولانا کی صاحبزادی ڈاکٹر فریدہ خانم (آپا) نے آواز دی کہ اوپر آجائیں۔ میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔بالآخر کسی طرح سیڑھیاں چڑھ کر مولانا مرحوم کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ میں جس شخصیت سے استفادے کے لیے ہمیشہ حاضر ہوا کرتا تھا، آج شدت سے مجھے اس کی غیر موجودگی کا احساس ستانے لگا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ میرے کانوں میں مولانا کے چند سادہ اور محبوب کلمات گونج رہے تھے۔ مثلاً، ارے بھائی! دیکھو بھائی! سنو بھائی! وغیرہ۔ یہ گویا کسی درد مند دل کی پکار تھی۔ اِسی کے ساتھ یہ سوالات بھی سنائی دینے لگے: "اقبال صاحب! فیاض صاحب! کوئی نئی خبر، کوئی نیا تجربہ ہے آپ کے پاس۔۔۔؟" ایک مرتبہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ کوئی خبر نہیں ہے۔ تو مولانا نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں۔ ہر دن نیا سورج نکلتا ہے، پوری کائنات اعلی بندوبست کے ساتھ چل رہی ہے— کیا یہ خبر(نیوز) نہیں ہے۔ گویا مولانا کے نزدیک اخباری نیوز کوئی نیوز نہیں تھی، بلکہ حقیقی نیوز وہ تھی، جس سے معرفت کا رزق حاصل ہو۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج بظاہر سوال کرنے والا ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، مگر سوال بدستور قائم ہے۔ تاکہ مولانا کے بعد بھی معرفت کا عمل رکے بغیر جاری رہے۔ مولانا کے کمرے میں خالی کرسی اور شیلف میں آویزاں اُن کے عبا کو پر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا ، ایک طرف خالی کرسی اور جبہ ، دوسری طرف مولانا کی ساری تصنیفات۔ گویا کرسی اوران کا جبہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخصیت اب اِن کتابوں میں موجود ہے۔
پنچ پیراں قبرستان میں:اس کے بعد پہلی بار مولاناوحیدالدین خاں صاحب کی قبر پر حاضری کا موقع ملا۔ بستی حضرت نظام الدین کے قبرستان پنچ پیراں کے صدر دروازے سے داخل ہونے کے بعد سیدھے قبرستان کے آخری حصے میں ایک مزار کی مضبوط فصیل بنی ہوئی ہے۔ ٹھیک اس سے ذرا پہلے مولانا کی قبر موجود ہے۔ میری زبان گنگ تھی۔ ’’السلام علیکم یا أہل القبور‘‘(اے قبر کے ساکنو، تم پر سلامتی ہو) کے روایتی الفاظ زبان پر جاری تھے۔
قریب ہوا، اپنے ساتھی سے قبلہ معلوم کیا اور نماز جنازہ ادا کی۔ میرا دل مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ مولانا! فی الوقت میں آپ کی قبر کے پاس ہوں۔ جس معرفت کی سطح پر آپ پہنچے ہیں اس کو لے کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔اس وقت میں قبرستان میں اسی اضطراب کے عالم میں کبھی میں قبر کے کتبہ پر ہاتھ لگا تا، کبھی قبر کو دیکھتا ۔ گویا میں مولانا سے کچھ سننا چاہتا ہوں۔ مگر میرے شعور نے کہا کہ مولانا آپ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی پرواہ کیے بغیر واضح طور پرخدا کی ہر بات کھول کھول کر بتادی، آخری حد تک خیرخواہی کردی( قَد بَلَّغْتَ، وَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ)۔ اب مولانا خدا کے فطری قانون کے تحت ہم سے جدا ہوکر آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ پھر یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم نے مولانا کے ذریعہ جو عصری اسلوب میں اسلام پایا ہےاس کو آگے لے کر جائیں۔
بہرحال، اِنھیں کیفیات سے گزرتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے افطار کے وقت کی ایک دعا یاد آگئی:ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی، پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔ اِس دعا کو میں اِس طرح پڑھنے لگا: ذھب روح مولانا ودفن الجسم وارجو من اللہ ان یثبت لہ الفردوس (مولانا کی روح پرواز کرگئی۔ جسم قبر کے حوالے ہوگیا اور اللہ سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل سے مولانا کو جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا فرمائے گا)۔ اور یہ بھی سوچا کہ مولانا کی روح جب پرواز کررہی تھی تو اس وقت بھی وہ اسی قسم کے الفاظ دہرارہے ہو ں گے :ذھب نفسی، ودفن جسدی وأرجو من اللہ ان يثبت اجری( میری روح پرواز کر گئی میرا جسم سپرد خاک ہوگیا امید ہے کہ میرا رب میرے حق میں بہتر فیصلہ فرما ئے گا)۔ گویا مولانا کی سادہ زندگی معرفت کی راہ کا "روزہ" تھا، موت ان کے لیےرفیق اعلی سے ملاقات کا"افطار" بن گئی۔
حقیقت کی تلاش اور حقائق کی یافت کی خاطر ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں اور رگوں کا خون خشک ہوگیا ، پوری امید ہےکہ برزخ کی زندگی میں خدا نےانھیں ضرور تروتازہ رکھا ہوگا، اوراجر عظیم کا فیصلہ کیا ہوگا جس کی رضا کی خاطرمولانا نے لوگوں کی ناراضگی کو برداشت کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ معرفت والا دین غائب ہو جائے اور رسمی عبادت باقی رہ جائے تو از سر نو روحِ عبادت کو ڈسکور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں نے یہی کام سر انجام دیا ہے۔
داعی کا مشن: خدا امید کا سرچشمہ ہے۔ایک سچے مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی اضطراب میں گزرتی ہو، مگر اس کا خاتمہ پرامید ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ’معلوم مقام‘ کی طرف جارہا ہوتاہے، یعنی آخرت اور خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت کی طرف۔ معرفتِ رب ہو یا معرفت ِآخرت، اس کی تذکیر کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مگر شیطان غفلت میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ جوانوں کا موضوع نہیں، بوڑھے لوگوں کا موضوع ہے۔کیوں وہ لوگ زندگی سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔انسان کی یہی سب سے بڑی نادانی اور سرکشی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موت کی یاد اور اس کے لیے تیا ری کا چرچا آج کل بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی داعی یا مربی معرفت ِرب یا فکر ِآخرت کی یاددہانی کراتا ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔ آخرت کے علاوہ بقیہ سارے موضوعات سے ہردن روز نامچے یا اخبار ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مگر خدا کے منصوبۂ تخلیق کےمطابق، اصل تیاری آخرت کی ہے۔ جس کے لیےخالق نے اہتمام کے ساتھ انبیاء کرام کو منتخب کیا تھا۔ قرآن میں ہے:إِنَّآ أَخۡلَصۡنَٰهُم بِخَالِصَةٖ ذِكۡرَى ٱلدَّارِ (38:46)۔ بے شک ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کی یاد دہانی ہے ۔
چنانچہ آخرت داعی کاخاص موضوع ہوتا ہے۔ مسائلِ دنیا تو غیر داعی کا موضوع ہے، مگر مسائل آخرت صرف ایک نبی اور ان کے بعدان کے ماننے والےداعی کا موضوع ہواکرتا ہے۔یقیناً مولانا کی ہر بات آخرت رخی تھی۔ ان کی مجلسوں ، ٹیلفونک گفتگو اوران کی کتابوں سے میں نے یہی پایا ہے۔وہ معرفت اورآخرت کے داعی بن کر دنیا میں رہے اور اسی حالت میں وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے آخری حد تک اپنی صلاحیتوں کی قربانی دی ۔ انھوں نےاللہ کی عبادت کو مقصد اور اس کی طرف بلانے کو اپنا مشن بنایا، ان کی ساری تحریروں کو اسی نقطہ نظر کے تحت سمجھا جاسکتا ہے ۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد)