اہل جنت

قرآن میں اہل جنت کے تین گروہوں کا ذکراس طرح آیا ہے: فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (35:32)۔ یعنی پس ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور ان میں سے کچھ بیچ کی چال پر ہیں۔ اور ان میں سے کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے بڑا فضل ہے۔

یہ تین درجات جنت کے لیے انسان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھول دیے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنت کے مختلف درجات ہیں ۔ کیوں کہ دنیا میں لوگوں کی کوششیں مختلف سطح پر ہوتی ہیں (اللیل، 92:4)۔یہ کوششیں وسیع تر تقسیم کے اعتبار سے تین درجات پر مشتمل ہیں۔یہ درجات دراصل عمل کے اعتبار سے ہیں۔یعنی جنت کے لیے عمل کی تین بنیادی سطحیں ہیں۔ اور یہ سطحیں اس اعتبار سے بنیں گی کہ کون کتنا زیادہ مواقع کو اویل (avail) کرے گا۔  

 قاضی ثناء اللہ پانی پتی (1730-1810ء) اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ظالم لنفسہ وہ لوگ ہیں، جو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں (مقصر فى العمل)۔ اور مُقْتَصِدٌ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں ، حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ( يعمل على ظاهر الكتاب ولا يفوز الى حقيقته)۔ اور سابق بالخیرات وہ ہیں، جن کی رسائی حقائق قرآن تک ہے،جو عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم بھی دیتے اور ہدایت بھی کرتے ہیں(من ضم الى العمل التعليم والإرشاد)تفسیر مظہری، جلد8، صفحہ56۔

 حقیقت یہ ہے کہ جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی عملاً اس کی تیاری کرے۔چوں کہ انسان اپنی کوششوں کے اعتبار سے مختلف درجات میں بٹا ہوا ہوتاہے۔ وہ اسی اعتبار سے آخرت میں اپنا مقام پائے گا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom