مکمل اسلام، ربانی اسلام
اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ قرآن میں كُونُوا رَبَّانِيِّينَ (3:79)تو آیا ہے، یعنی اللہ والے بنو۔ مگر نفذوا شرائع الاسلام(اسلامي شريعت كو امپوز كرو) کہیں نہیں آیا ہے۔ اسلام کا یہ تصور بلاشبہ قرآن و سنت میں ایک اجنبی تصور ہے۔یعنی یہ کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے، اور اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس کوزندگی کےہر شعبہ حیات میں پوری طرح نافذ کریں۔ کسی پیغمبر نے دین کا یہ تصور پیش نہیں کیا، اور نہ کسی پیغمبر نے یہ کہا کہ میرا کام خدا کے دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامل طور پر نافذ کرنا ہے۔ حالاں کہ تمام پیغمبروں کا اصل دین ایک تھا۔
آپ اس قسم کے کسی مسلم رہنما کی تحریر پڑھیے یا اس کی تقریر سنیے، تو لمبی تقریر اور لمبی تحریر کے باوجود ان کی باتوں میں اصل اسلام حذف ہوگا۔ اللہ سے محبت کی بات ، اللہ سے خوف کی بات، آخرت کے مواخذہ کی بات، جنت کے شوق کی بات، ذاتی تزکیہ کی بات ، دعوت الی اللہ کی بات، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام باتیں ان کے طویل کلام میں حذف ہوں گی۔ البتہ ساری دھوم اس بات پر ہوگی کہ فلاں طاقت اسلام کی دشمن ہے، فلاں طاقت اسلام کے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم کے اندر اسلاموفوبیا کا مزاج پیدا ہوگیا ہے، فلاں حکومت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، و غیرہ۔
ایسا کیوں ہے کہ ان لوگوں کی باتوں میں مثبت اسلام غائب ہوجاتا ہے، اور دشمنان اسلام کے تذکرے کی دھوم ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریک کے لیے صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت ہی نہیںکیا۔ وہ ہمیشہ ایک ایسے مقام سے اپنے عمل کا آغاز کرتے ہیں جو اس دنیا میں کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا ہی نہیں۔
جب وہ اس بات کو اپنا نشانہ بناتے ہیں کہ اسلام کو مکمل نظریۂ حیات کےطور پر نافذ کرنا ہے۔ تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پولیٹکل اتھارٹی ہے جو ان کے کام میں مستقل رکاوٹ ہے۔ اس لیے وہ فوراً پولیٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں تاکہ خود پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کریں۔ کیوں کہ ان کے مفروضہ نظریے کے مطابق ان کو نظر آتا ہے کہ پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کیے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت کا دستورانھیں اجازت دے کہ تم نان پولیٹکل میدان میں اپنا کام جاری رکھو، تو ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تو ناقص اسلام ہے۔ ہم اپنے نظریے کے خلاف ناقص اسلام پر کیسے راضی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کا مفروضہ مکمل اسلام ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتا، اور جو اسلام ان کو حاصل ہوتا ہے، وہ نامکمل دکھائی دیتا ہے۔
اگر دین کا یہ تصور درست ہو کہ دین ایک جامع نظام حیات کا نام ہے، اور دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا اہل دین کا مشن ہے تو یہ دین کا ایک ایسا تصور ہے جو سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنا مشن یہ بنائے کہ مجھے سورج کو مغرب سے نکالنا ہے، اور اس کو مشرق میں غروب کرنا ہے، تو ایسا مشن کبھی واقعہ نہیں بنے گا۔ یہی حال اس تصور دین کا ہے جس کو مکمل اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک انسانی تاریخ میں پیغمبروں کی رہنمائی میں دینی تحریک کاتسلسل جاری رہا۔ مگر اس پوری مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں کامل نظام کی حیثیت سے نافذ اور قائم ہوجائے۔ حتی کہ خاتم النبیین کے زمانے میں بھی نہیں۔ انبیاء اور انبیاء کے متبعین کی پوری تاریخ میں کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ اس قسم کا مفروضہ کامل نظام کبھی عملاً جاری و نافذ رہا ہے۔
عمر بن الخطاب (وفات 23 ہجری)اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک خطاب میں کہا:إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2276)۔یعنی سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی، وہ آیتِ ربا تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، اور آپ نے ہمارے لیے اس کی تفسیر نہیں بیان کی۔ پس تم ربا بھی چھوڑ دو، اور جس میں ربا کا شبہ ہو، اس کو بھی چھوڑ دو۔
اس طرح کے دوسرے بہت سے احکام ہیں، جن میں ہم کو بنیادی اصول تو ملتا ہے، لیکن ہم کو ان کی تفصیل نہیں ملتی۔ مثلاً خلیفہ کے انتخاب کا کوئی ایک متعین قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتاہے کہ دین اصلاً انفرادی پیروی کا موضوع ہے، نہ کہ اجتماعی نفاذ کاموضوع۔