تقدیرِ انسانی

مشہور مسیحی مشنری بلی گراہم (Billy Graham) نے بتایا ہے کہ ایک بار وہ سفر میں تھے۔ اس دوران اُن کو ایک دولت مند امریکی کا پیغام ملا۔ اس پیغام میں کہاگیا تھا کہ فوراً مجھ سے ملو۔ بلی گراہم اپنا سفر ملتوی کرکے مذکورہ امریکی دولت مند کے پاس پہنچے۔

امریکی دولت مند کے گھر پہنچتے ہی اُن کو ایک علیٰحدہ کمرہ میں لے جایا گیا۔ یہاں مذکورہ امریکی دولتمند اُن کا انتظار کررہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو امریکی دولت مند نے بلی گراہم سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ زندگی نے اپنی تمام معنویت کھو دی ہے۔ میں جلد ہی ایک نامعلوم دنیا کی طرف چھلانگ لگانے والا ہوں۔ نوجوان!کیا تم مجھ کو امید کی ایک کرن دے سکتے ہو:

You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am going to take a fateful leaf into the unknown. Young man, can you give me a ray of hope.

یہ صرف ایک امریکی دولت مند کی کہانی نہیں، بلکہ یہ تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر آدمی خواہ وہ امیر ہو یا غریب، خواہ وہ چھوٹا آدمی ہو یا بڑا آدمی۔ ہر شخص آخر کار اِسی احساس سے دوچار ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے لیے ایک پسندیدہ دنیا بنانا چاہتا ہے۔ وہ اپنا سارا وقت اس میں لگا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی مختصر زندگی کا آخری وقت آجاتا ہے اور وہ اِس احساسِ مجبوری کے ساتھ اس دنیا سے چلا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ پانا چاہتا تھا اس کو وہ پا نہ سکا۔

ایسا کیوں ہے۔ اس وسیع کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو اپنے سینے میں بے شمار خواہشیں (desires)رکھتا ہے۔ کیا یہ خواہشیں اسی لیے ہیں کہ وہ کبھی پوری نہ ہوں اور ہر انسان خود اپنی خواہشوں کے قبرستان میں دفن ہو کر رہ جائے۔ ہر عورت اور مرد کے ذہن میں خوابوں کی ایک دنیا بَسی ہوئی ہے۔ کیا سُہانے خوابوں کی یہ دنیا صرف اس لیے ہے کہ وہ محض خواب بن کر رہ جائے اور کبھی اُس کی تعبیر نہ نکلے۔ ہر انسان تمنّاؤں کا ایک باغ اپنے سینے میں اُگاتا ہے، مگر کسی انسان کو یہ خوشی نہیں ملتی کہ وہ اس خوبصورت باغ میں داخل ہوسکے۔

فطرت میں یہ تضاد کیوں ہے۔ انسان کے سوا وسیع کائنات میں ایسا تضاد کہیں موجود نہیں۔ نباتات، جمادات اور حیوانات کی پوری دنیا اس قسم کے تضاد سے مکمل طورپر خالی ہے۔ پھر یہ تضاد استثنائی طورپر صرف انسان کی زندگی میں کیوں پایا جاتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ انسان اور کائنات کی دوسری چیزوں کے درمیان ایک بے حد بنیادی فر ق ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں— موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات اور موت کے بعد کا مرحلہ ٔ حیات۔ اس کے برعکس کائنات کی بقیہ تمام چیزوں کا صرف ایک مرحلہ ہے۔ یعنی وجود میں آنا اور پھر ایک دن مٹ جانا، پیدا ہونا اور پھر مَر کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانا۔

اصل یہ ہے کہ انسان جو کچھ اپنے پہلے مرحلۂ حیات میں پانا چاہتا ہے وہ اس کے لیے دوسرے مرحلۂ حیات میں مقدر کیا گیا ہے۔ اور جو چیز سفرِ حیات کے اگلے مرحلے میں ملنے والی ہو وہ سفرِ حیات کے ابتدائی مرحلے میں کبھی کسی کو نہیں ملتی۔اس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ انسان کے لیے فطرت کا ایک خصوصی قانون ہے جو اس کائنات کی دوسری چیزوں کے لیے نہیں۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کو عمل اور جزا کے اُصول کے تحت رکھا گیا ہے۔ یعنی موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں عمل کرنا اور موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں اس کا انجام پانا۔

یہی قانون انسان کی زندگی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قانون کو سمجھنے کے بعد انسان کی پوری زندگی با معنٰی بن جاتی ہے۔ یہ قانون انسان کی زندگی کے تمام سوالات کا کامل جواب فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کو جاننے کے بعد پوری انسانی زندگی کی تشفی بخش توجیہہ مل جاتی ہے۔ اس قانون کے مطابق مو ت سے پہلے کی دنیا انسان کے بیج ڈالنے کا مرحلہ ہے اور موت کے بعد کی دنیا اس کے نتیجے میں ہَرا بھرا درخت اور پھول و پھل پانے کا مرحلہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا میں پھول اور پھل حاصل کرنے کی لا حاصل کوشش نہ کرے بلکہ وہ اپنی ساری توجّہ بہترین طورپر تخم ریزی میں لگا دے۔ یہ وہ انسان ہے جو موت کے بعد کی دنیا میں جنت کی صورت میں وہ سب کچھ پالے گا جس کو وہ موت سے پہلے کی دنیا میں نہ پاسکا تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom