انسان اور حیوان

معلوم کائنات میں صرف انسان وہ مخلوق ہے جو ذہن (intelligence) رکھتا ہے۔ معلوم طورپر کوئی بھی دوسری مخلوق اس معاملے میں انسان کی شریک نہیں۔ حیوان بظاہر ایک زندہ مخلوق ہے۔ مگر حیوانات کی تمام سرگرمیاں اُن کی جِبِلَّت(instinct) سے کنٹرول ہوتی ہیں۔ جبلت کو سادہ زبان میں بے شعور ذہانت کہہ سکتے ہیں۔ با شعور ذہانت صرف انسان کی خصوصیت ہے کسی اور کی نہیں۔

جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان کا ذہن لامحدود امکانات کا حامل ہے:

Human brain contains about hundred million billion billion particles.

انسان اپنی صلاحیت کے اعتبار سے لامحدود امکانات لے کر پیدا ہوتا ہے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اس احساس کے ساتھ مرتا ہے کہ وہ جو کچھ پانا چاہتا تھا اس کو وہ نہ پاسکا۔ فُل فِل مِنٹ (fulfilment) ہر انسان کی ایک گہری تمنا ہے۔ مگر ہر انسان فُل فِل منٹ کی منزل کو پائے بغیر مرجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ٹریجڈی ہے جو اس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

اس دنیا میں بے شمار حیوانات ہیں۔ وہ بھی انسان کی طرح پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں، مگر مذکورہ قسم کی عدم آسودگی کسی حیوان کا مسئلہ نہیں۔ ٹریجڈی کا لفظ صرف انسان کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے، وہ حیوان کی ڈکشنری میں موجود نہیں۔

انسان اور حیوان میں اس تضاد کا جواب ایک سادہ واقعے میں ملتا ہے۔ انسان اور حیوان کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پرآئندہ کَل (tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔گویا انسان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ وہ اپنے آج کو کل تک وسیع کرناچاہتا ہے، وہ اپنے آج میں جوکچھ نہ پاسکا اس کو وہ اپنے کل میں پانا چاہتا ہے۔

حیوانات کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ حیوانات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ آئندہ کل (tomorrow) کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ وہ صرف آج میں جیتے ہیں اور آج ہی میں مرجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ حیوانات کا بعض کام جو بظاہر کل پر مبنی معلوم ہوتا ہے مثلاً، چیونٹی کا آئندہ موسم کے لیے خوراک جمع کرنا، وہ بھی جبلت کے تقاضے کے تحت ہوتا ہے نہ کہ کَل یا مستقبل کے شعور کے تحت۔

انسان کی اس منفرد صفت کو لے کر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا فُل فِل مِنٹ کے درجے کو پانے کا جذبہ کَل کی نسبت سے ہے۔ یعنی وہ کَل حاصل ہونے والا ہے۔ آج کا حیاتیاتی اسپین (span) بہت مختصر ہے، اس لیے اس کے حصول کو فطرت نے اس کو کَل کے دورِ حیات میں رکھ دیا ہے۔

اس لحاظ سے انسان کی زندگی کے دو مرحلے ہیں، ایک قبل ازموت مرحلۂ حیات اور دوسرا بعد از موت مرحلۂ حیات۔ قبل از موت مرحلۂ حیات عارضی ہے اور بعد ازموت مرحلۂ حیات ابدی۔ یہ تقسیم اس لیے ہے کہ انسان جو کچھ آج نہ پاسکا اس کو وہ کل کے مرحلۂ حیات میں پاسکے۔

جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، انسانی برین (brain)کے اندر ایک سو ملین، بلین بلین پارٹکل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسانی ذہن لامحدود پوٹینشیل رکھتا ہے۔یہ پوٹینشیل اتنا زیادہ ہے کہ انسان کی طبعی عمر جو لگ بھگ سو سال ہے، وہ اس پوٹینشیل کو کام میں لانے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ حتیٰ کہ اگر انسان کی عمر اس سے بہت زیادہ ہو تب بھی زمین کے حالات اتنے محدود ہیں کہ اس محدود زمین پر انسان اپنے لامحدود ذہن کا استعمال نہیں پاسکتا۔ انسانی ذہن کے لامحدود امکان کے مقابلے میں انسان کی عمر بھی ناکافی ہے اور موجودہ زمینی قیام گاہ کی عمر بھی ناکافی۔

اس حقیقت پر غور کیا جائے تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ انسان کو اپنے مکمل فُل فِل منٹ کے لیے ایک اور طویل تَر عمر اورایک اور زیادہ بڑی دنیا درکار ہے۔ موجودہ حالت میں انسانی ذہن کے امکانات ہمیشہ غیر استعمال شدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اس حقیقت کو سامنے رکھ کر زندگی کی توجیہہ کی جائے تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ انسان کی زندگی آئس برگ کی مانند ہے۔ اس آئس برگ کا بہت چھوٹا حصہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں نظر آتا ہے اور اس کا زیادہ بڑا حصہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں چھپا ہوا ہے۔ یہ مانے بغیر انسانی زندگی کی توجیہہ نہیں ہوتی اور جب کوئی تصور کسی مشاہدے کی توجیہہ کے لیے ایک ہی امکانی تصور بن جائے تو یہ اس بات کا علمی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ تصور عین حقیقت ہے۔ یہی اس معاملے میں درست علمی موقف ہے۔

مذکورہ حقیقتوں کو سامنے رکھ کر انسانی زندگی کی توجیہہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا انسان کی صرف عارضی قیام گاہ ہے۔ وہ اس کی ابدی منزل نہیں۔

ہر انسان لازمی طورپر موت سے دوچارہوتا ہے۔ یہ موت کیا ہے؟ موت دراصل ایک درمیانی پُل ہے۔ موت عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ موجودہ دنیا وہ دنیا ہے جہاں آدمی گویا اپنی تربیت کرتا ہے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات گویا ایک ٹریننگ پریڈ ہے۔ یہاں وقتی قیام کے دوران اپنے آپ کو تربیت یافتہ بنا کر اگلی مستقل دنیا میں جانا ہے، جہاں یہ موقع ملے گا کہ آدمی اپنے ذہن کے تمام امکانات کو استعمال کرے اور مکمل فُل فِل مینٹ کی خوشی حاصل کرسکے۔

تاہم دوسرے مرحلۂ حیات میں اُنہیں لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے پہلے مرحلۂ حیات میں اپنی باقاعدہ تربیت کی ہوگی۔ جو لوگ غیر تربیت یافتہ حالت میں وہاں پہنچیں گے وہ وہاں کے مواقع استعمال کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔ وہ قبل از موت دورِ حیات میں بھی محروم رہیں گے اور وہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں بھی فُل فِل مینٹ سے مکمل طورپر محروم رہیں گے۔ یہ محرومی بلا شبہہ ان کے لیے ایک ایسی سزا ہوگی جس سے زیادہ سخت سزا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

انسان اگر صرف اپنے آج میں جئے اور اپنے آج میں مَر جائے تو وہ گویا حیوان کی زندگی جِیا اور حیوان کی زندگی مرگیا۔ حقیقی انسان وہ ہے جو اپنے آج سے گذر کر اپنے کل تک پہنچ جائے۔ جو اپنی محدود دنیوی عمر کو ختم کرکے اس طرح مرے کہ اس میں اپنے کل کی تعمیر کرلی ہو، وہی حقیقت میں انسان ہے اور وہی اس قابل ہے کہ اس کو کامیاب انسان کا ٹائٹل دیا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom