انسان کی منزل
ڈاکٹر الکسس کیرل (Alexis Carrel) ۱۸۷۳ میں فرانس میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ سائنسی تعلیم کے بعد انہوں نے اپنے کیرئر کا بیشتر حصہ امریکا میں گزارا۔ ۱۹۱۲ میں ان کو میڈیسن کا نوبل پرائز ملا۔ ۱۹۴۴ میں ان کا انتقال ہوا اور فرانس میں ان کے وطن میں ان کی تدفین ہوئی۔
ڈاکٹر الکسس کیرل کی ایک کتاب ۱۹۳۵ میں انسان نامعلوم (Man The Unknown) کے نام سے چھپی۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔ مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔ اس کتاب کے بارے میں اس کے ایک تبصرہ نگار نے درست طورپر لکھا ہے کہ: یہ کتاب خالص سائنسی اعتبار سے انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں مصنف کے تجربات کا خلاصہ پیش کرتی ہے:
This book sums up much of his experience of man and his life seen from the purely scientific aspect.
۳۱۲ صفحہ کی اس کتاب میں ڈاکٹرا لکسس کیرل انسانی زندگی کی حقیقت معلوم کرنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ اپنی اس کتاب کا ٹائٹل انہوں نے ان الفاظ میں مقرر کیا: انسان نامعلوم (Man The Unknown)
اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جہاں تک انسان بحیثیت ایک سائنسی وجود کا معاملہ ہے اس کو ڈاکٹرالکسس کیرل بڑی حد تک دریافت کرچکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب کا نام انسان نامعلوم کیوں رکھا۔ ایسا ایک کنفیوژن کی بنا پر ہوا۔ الکسس کیرل نے ’’انسان‘‘ کو تو معلوم کرلیا تھامگر ان کا مطالعہ ان کو یہ نہ بتا سکا کہ اس انسان کی منزل کیا ہے۔ ان کو محسوس ہوا کہ ایک معلوم انسان ایک غیر معلوم منزل کی طرف جارہا ہے۔ اور یہی ان کی عدم معرفت کا اصل سبب ہے۔اس اعتبار سے کتاب کا زیادہ صحیح ٹائٹل یہ ہوگا: نامعلوم منزل (Goal The Unknown)
یہ صرف ڈاکٹر الکسس کیرل کا مسئلہ نہیں۔ یہی تمام فلاسفہ اور مفکرین کا مسئلہ ہے۔ انسان بظاہر ان کے لیے ایک معلوم چیز تھی۔ مگر اس معلوم انسان کی منزل کیا ہے، وہ ان کے لیے آخری حد تک غیر معلوم رہی۔ انسان اور اس کی منزل کے درمیان یہی فکری خلا ہے جو ہزاروں سال سے انسان کو سرگرداں کئے ہوئے ہے۔ مگر آخر میں کنفیوژن کے سوا کسی کو کچھ نہیں ملا۔یہ ایک لائف ڈیفائننگ (life defining) سوال ہے اور اس کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اس کا تشفی بخش جواب دریافت کیا جائے۔
اصل یہ ہے کہ یہ فلاسفہ اور مفکرین انسان کی منزل اِسی آج کی دنیا میں ڈھونڈھ رہے ہیں۔ جب کہ آج کی دنیا میں وہ سرے سے موجودہی نہیں۔ یہ دنیا ایک نامکمل دنیا ہے، جب کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ایک مکمل دنیا کا طالب ہے۔ انسان حیاتِ ابدی چاہتا ہے، جب کہ موت سے پہلے کی اس دنیا میں حیات ابدی کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔ انسان مسرتوں کی دنیا چاہتا ہے مگر اِس دنیا میں طرح طرح کے ناموافق حالات ہیں جو اس دنیا کو پرمسرت دنیا بنانے میں لازمی رکاوٹ ہیں۔ انسان آئیڈیل دنیا چاہتا ہے مگر یہاں وہ ایک غیر آئیڈیل دنیا میں رہنے پر مجبور ہے۔ انسان پیدائشی طورپر پرفیکشنسٹ (perfectionist)ہے۔ وہ ایک پرفیکٹ دنیا چاہتا ہے مگر ساری کوششوں کے بعد وہ صرف یہ دریافت کرتا ہے کہ یہاں پرفکٹ دنیا کا ملنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جوچیز غیر معلوم ہے وہ انسان نہیں ہے۔ غیر معلوم چیز دراصل انسان کی منزل ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وہ دنیا جو انسان کے خوابوں کی تعبیر ہو، جو ہر قسم کے تضاد سے خالی ہو، جہاں انسان پورے فُل فِلمنٹ(fulfilment) کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جی سکے۔
یہ بظاہر ناقابلِ حل مسئلہ اس وقت واضح طورپر حل ہوجاتا ہے جب کہ انسان کا مطالعہ خدائی اسکیم کی روشنی میں کیا جائے۔ یعنی مخلوق کو سمجھنے کے ساتھ خالق کی منشا کو بھی سمجھا جائے۔ یہی اس معاملہ میں سائنٹفک طریقہ ہے۔ جب اِس حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا مسئلہ صرف اس لیے ہے کہ خدا کے کریشن پلان (creation plan) کو سامنے رکھے بغیر انسان کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انسان ایک مخلوق ہے، وہ خود خالق نہیں، جس طرح مشین ایک مصنوع (make) ہے، وہ خود اپنی صانع (maker) نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کی حقیقت کو جاننے کے لیے خالق کے تخلیقی نقشہ کو جاننا ضروری ہے۔ انجینئر کے منصوبہ کو جانے بغیر مشین کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح خالق کے تخلیقی نقشہ کو جانے بغیر انسان کی توجیہہ کرنا ممکن نہیں۔ اس تخلیقی نقشہ کو سامنے رکھے بغیر انسان کی زندگی اور اس کی معنویت ناقابل فہم رہتی ہے۔ لیکن اس تخلیقی نقشہ کو سمجھنے کے بعد ہر چیز پوری طرح قابل فہم بن جاتی ہے۔ ہر چیز اپنا صحیح مقام پالیتی ہے:
Everything falls into place.
اصل یہ ہے کہ اس دنیا کو بنانے والے نے اپنے تخلیقی نقشہ کے مطابق، اُس کو ایک جوڑا دنیا (pair world) کی شکل میں بنایا ہے۔ ایک وہ دنیا جس میں ہم پیدا ہونے کے بعد رہتے ہیں۔ دوسری وہ دنیا جہاں ہم موت کے بعد چلے جاتے ہیں۔ اس طرح انسانی زندگی کے دو حصے ہیں،ایک قبل از موت پیریڈ (pre-death period) اور دوسرا بعد از موت پیریڈ (post-death period)۔ انسانوں کو اُس کے پیدا کرنے والے نے ایک ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے۔ مگر اُس نے اس کی زندگی کو دو مرحلوں میں تقسیم کردیا ہے۔ قبل ازموت دور اور بَعد از موت دور۔
موت سے پہلے کی دنیا آزمائشی مقام(testing ground) کے طورپر بنائی گئی ہے اور موت کے بعد کی دنیا دارُالجَزاء (world of reward) کے طورپر۔ موجودہ دنیا چونکہ ٹسٹ کے لیے بنا ئی گئی ہے اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی حاصل ہے۔ یہاں ہر چیز ناقص اور محدود صورت میں ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک قسم کا اگزامینیشن ہال(examination hall) ہے۔ یہاں ٹسٹ دینے کے بقدر ضروری سامان موجود ہیں مگر پُرمسرت زندگی گزارنے کے لیے جو اعلیٰ چیزیں درکار ہیں وہ یہاں موجود نہیں۔ اگزامنیشن ہال کے اندر کوئی طالب علم اپنی مطلوب زندگی کی تعمیر کرنا چاہے تو اس کو صرف مایوسی ہوگی۔ یہی مایوسی ان لوگوں کو ہورہی ہے جو موجودہ ٹسٹ کی دنیا میں اپنے مطلوب مستقبل کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
قبل از موت دنیا میں کسی عورت یا مرد کو کیا کرنا ہے کہ وہ بعد از موت دنیا میں اپنی مطلوب دنیا (desired world) پاسکے، اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کو خالق کے منشا کے مطابق استعمال کرے۔
بعد از موت زندگی کے لیے خدا نے ایک مکمل دنیا بنائی ہے جس کا نام جنت ہے۔ یہ جنت ہر اعتبار سے آئیڈیل اور پرفکٹ ہے۔ اس جنت میں بسانے کے لیے خدا کو ایسے انسان درکار ہیں جو جنت کی اس دنیا میں بسائے جانے کے اہل ہوں۔ موجودہ دنیا میں جو آدمی اپنے آپ کو خدائی معیار کے مطابق کوالیفائی (qualify) کرے گا وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسایا جائے گا۔
یہ کوالیفائڈ عورت اور مرد کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے خدا کی معرفت حاصل کریں۔ جو فکری کنفیوژن سے باہر آکر سچائی کو دریافت کریں۔ جو غیر خدا کی پرستش کو چھوڑ کر خدا کے پَرستار بنیں۔ جو آزادی کے باوجود اپنے آپ کو خدائی ڈسپلن میں دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جو منفی حالات میں اپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کریں۔ جو دوسروں کے ساتھ بھی وہی اخلاقی معاملہ کریں جو وہ اپنے ساتھ چاہتے تھے۔
خدا کے کریشن پلان کے مطابق، یہی معیار (criterion) ہے۔ جو عورت یا مرد اس معیار پر پورے اتریں وہ موت کے بعد ابدی جنت میں بسائے جائیں گے۔ اور جو لوگ اِس معیار پر پورے نہ اتریں وہ موت کے بعد ابدی جہنم (hell) میں ڈال دئے جائیں گے جہاں ان کے لیے حسرت اور مایوسی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ اہلِ جنت کا کیس ان لوگوں کا کیس ہے جنہوں نے آج کی دنیا کے مواقع (opportunities) کواستعمال (avail) کیا اور اہلِ جہنم کا کیس ان لوگوں کا کیس ہے جو موجودہ دنیا کے مواقع کو استعمال (avail) نہ کرسکے۔ ان کا کیس محروم مواقع (missed opportunities) کا کیس قرار پائے گا۔
کہا جاتا ہے کہ کوئی موقع صرف ایک بار تمہارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ ابدی کامیابی کے معاملہ میں یہ قول پوری طرح درست ہے۔ کیوں کہ یہ موقع کسی کو بھی دوسری بار ملنے والا نہیں۔ جن لوگوں کا کیس مواقع کو استعمال کرنے والے (opportunities availed) کا کیس قرار پائے گا وہ بھی ہمیشہ کے لیے ہوگا اور جن لوگوں کا کیس مواقع کو کھونے والے (opportunities missed) کا کیس ہوگا وہ بھی ہمیشہ کے لیے ہوگا۔اِس معاملہ میں ہر ایک کے لیے ناکامی بھی ابدی ہوگی اور کامیابی بھی ابدی۔