انسان کا اَلْمیہ
فطرت کے قانون کے مطابق، انسان کو ایسے حالات میں پیدا کیا گیاہے کہ اس کو اپنی پوری زندگی مشقتوں میں گزارنی پڑے۔ اس کے مطابق، مشقت اور رنج خالق کے تخلیقی منصوبہ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کوئی بھی انسان اس پر قادر نہیں کہ وہ اپنے آپ کو زندگی کے اِس پُرمشقت کورس سے بچا سکے۔
دنیا کی زندگی میں رنج و مشقت خالق کے تخلیقی منصوبہ کا حصہ ہیں۔ یہ نظام اس لیے ہے کہ آدمی کو یاد دلایا جائے کہ موجودہ دنیا تمہارے لیے عیش گاہ کے طورپر نہیں بنائی گئی بلکہ وہ امتحان گاہ کے طورپر بنائی گئی ہے۔ موجودہ دنیا اس لیے ہے تاکہ آدمی مختلف احوال سے گزرے۔ انہی احوال کے درمیان یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص جنت کی ابدی دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہے یا نہیں۔ جو شخص ان احوال کے دوران صحیح اور مطلوب رد عمل نہ پیش کرے وہ اِس قابل ہے کہ اس کو الگ کرکے جہنم کے کوڑے خانے میں ڈال دیا جائے۔
موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ’’مَشقّت”(toil)کی یہ صورتِ حال بدستور باقی ہے۔ لیکن خدا کے تخلیقی نقشہ سے بے خبری کی بنا پر لوگ اس کی نوعیت کو سمجھ نہیں پاتے اور غلط رد عمل پیش کرکے اپنے آپ کو خدا کی نظر میں ایسا انسان ثابت کرتے ہیں جو امتحان کے کورس سے گزرا مگر وہ اپنے آپ کو کامیاب نہ کرسکا۔
موجودہ زمانے میں اس مسئلے کو لے کر بڑے بڑے ادارے کھُلے ہیں جو اپنے دعوے کے مطابق ڈی اسٹریسنگ(de-stressing) کا کام کرتے ہیں۔ یعنی دماغی سوچ کو معطّل کرکے آدمی کو سکون عطا کرنا۔ مگر یہ ایک قسم کا وقتی عملِ تخدیر(anesthesia) ہے، نہ کہ مسئلے کا کوئی حقیقی حل۔ اِس مسئلے کا حقیقی حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اسٹریس مینیجمنٹ(stress management)۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں مصیبت کا شکار رہتے ہیں وہ اکثر اپنے آپ کو اُس چیز میں مشغول کرلیتے ہیں جس کو انسانی خدمت یا سوشل سروس کہا جاتا ہے۔ یہ گویا غم غلط کرنے کی ایک تدبیر ہے مگر وہ بھی ’’مشقت‘‘ کی صورت حال کا صحیح اور مطلوب رد عمل نہیں۔
سوشل سروس ایک انسانی خدمت ہے اور اس اعتبارسے وہ بلاشبہہ ایک قابل تعریف عمل ہے۔ مگر زندگی کے بارے میں فطرت کے تخلیقی نقشہ کی اہم تر نسبت سے دیکھا جائے تو اس کے اندر ایک غیرمطلوب پہلو چھپا ہواہے۔ غور کیجئے کہ جو شخص کسی مصیبت کا تجربہ کرتا ہے اور پھر وہ سوشل سروس میں مشغول ہوجاتا ہے، اس کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ اس کی نفسیات ایک جملہ میں یہ ہوتی ہے کہ—جو کچھ میں نے بھُگتا وہ دوسروں کو نہ بھگتنا پڑے:
Let no other suffer what I have suffered.
یہ نفسیات بتاتی ہے کہ آدمی سارے معاملہ کو بس دنیا کا معاملہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک مصیبت صرف دنیا کی مصیبت ہے اور سب سے بڑا کام یہ ہے کہ دنیا کو بے مصیبت جگہ بنا یا جائے۔ حالاں کہ یہ سوچ فطرت کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اس لیے وہ یہاں واقعہ بننے والی ہی نہیں۔
جب بھی دنیا میں کسی کو کوئی ناخوشگوار تجربہ ہو تو وہ اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی اس سے صحیح سبق لے۔ وہ اس حقیقت کو یاد کرے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں کسی کو بھی آرام کی زندگی ملنے والی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے منفی تجربات سے سبق لے۔ وہ اپنے اندر اس شعور کو جگائے کہ اس محدود دنیا میں مجھے اپنی مطلوب زندگی ملنے والی نہیں۔ مجھے اپنی مطلوب زندگی اگلے دَورِ حیات کی لامحدود دنیا میں تلاش کرنی چاہیے۔
ایسی حالت میں ناخوشگوار تجربات کا صحیح سبق یہ ہے کہ آدمی اگلی دنیا کی جنت کو یاد کرے، وہ اپنے اندر اس سوچ کو بیدار کرے کہ—جو کچھ میں نے آج کی عارضی دنیا میں بھُگتاوہ مجھے کل کی ابدی دنیا میں نہ بھگتنا پڑے:
Let me not suffer in the Hereafter that which I have suffered in this world.
کامیاب وہ ہے جس نے عارضی دنیا میں ابدی دنیا کو پہچانا۔ جس نے موجودہ دنیا کی ناکامی میں اگلے دورِ حیات کی ابدی کامیابی کا راز دریافت کرلیا۔
خدا نے موجودہ دنیا کو ایک ایسے نقشہ کے مطابق بنایا ہے کہ یہاں ہر انسان ’’مشقت‘‘ میں رہے۔ دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ موت کے بعد آنے والی دوسری دنیا غم سے پاک ہوگی جو صرف خدا کے پسندیدہ لوگوں کو ملے گی۔ زندگی کے بارے میں یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مذکورہ قسم کے تمام مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس تخلیقی تقسیم کی روشنی میں دیکھئے تو تمام انسانی مسائل کی جَڑ یہ ہے کہ لوگ موت سے پہلے کی دنیا میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں جب کہ یہاں فطرت کے نظام کے تحت وہ حالات ہی موجود نہیں کہ کوئی شخص یہاں اپنی جنت بنا سکے۔ جس طرح ریت یا دلدل کے اوپر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی ہے اسی طرح موجودہ دنیا میں کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ یہاں اپنا عیش محل تعمیر کرسکے۔ اور جب فطری قانون کے تحت آدمی اس ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو وہ مختلف قسم کے منفی ردّ ِعمل کا شکار ہوکر اپنے کو مزید تباہی میں ڈال لیتا ہے۔
صحیح یہ ہے کہ آدمی اس تخلیقی قانون کا اعتراف کرے اور اس کے مطابق، وہ اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ یہ منصوبہ صرف ایک ہے— موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو وہ مطلوب انسان بنانا جو موت کے بعد کی دنیا میں جنت میں داخلہ کا مستحق قرار پائے۔ فطرت کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، موت سے پہلے کی دنیا میں انسان کے لیے قناعت ہے، اور موت کے بعد کی دنیا میں انسان کے لیے جنت۔ دَور قناعت میں جنت نہیں، اور دَورِ جنت میں قناعت نہیں۔