آج کی دُنیا اور اگلی دُنیا
بیج ڈالنے کے دن جو کسان فصل کاٹنا چاہے، وہ بیج کو بھی کھوئے گا اور فصل سے بھی محروم رہے گا۔ یہی معاملہ آج کی دنیا اور موت کے بعد آنے والی کل کی دنیا کا ہے۔ آج کی دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور کل کی دنیا انعام پانے کی جگہ۔ جو شخص آج کی دنیا ہی میں ’’انعام‘‘ حاصل کرنا چاہے تو وہ اس قیمت پر ہوگا کہ وہ مطلوب عمل انجام نہ دے سکے گا۔ وہ اگلی دنیا کی تعمیر کے واحد موقع کو کھو دے گا۔
جو چیز اگلی دنیا میں ملنے والی ہے اس کو آدمی موجودہ دنیا میں پانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں ہی کو کھو دیتا ہے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو آج کی دنیا کے ذریعہ کل کی دنیا کو خریدے، نہ کہ وہ آج کی دنیا میں پھنس کر اگلی دنیا میں اپنے آپ کو محروم بنا لے۔
آپ سفر کے دوران وہ سکون حاصل کرنا چاہیں جو صرف گھر پر کسی آدمی کو ملتا ہے تو آپ کبھی اپنی اس طلب میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسی مثال سے آج کی دنیا اور کل کی دنیا کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج کی دنیا کو خدا نے عمل کرنے کی جگہ بنایا ہے اور کل کی دنیا کو عمل کا انجام پانے کی جگہ۔ آج کی دنیا سفر کا راستہ ہے اور کل کی دنیااس کی آخری منزل۔
اب اگر آپ چاہیں کہ آج کی دنیا ہی میں اپنا انجام پالیں تو آپ کے عمل کی منصوبہ بندی بالکل غلط ہو جائے گی۔ اِسی طرح اگر آپ راستے میں منزل والا سکون حاصل کرنا چاہیں تو آپ اپنے راستے کو کھوٹا کر لیں گے۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو آج کی دنیا اور کل کی دنیاکے اِس فرق کو سمجھے۔ وہ موت سے پہلے اُس چیز کی خواہش نہ کرے جو صرف موت کے بعد والی زندگی میں کسی کو مل سکتی ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ حقیقت پسند بنے۔ وہ خواہشوں کے پیچھے نہ دوڑے۔ کیوں کہ خواہشیں آدمی کو تباہی کے سوا کسی اور انجام تک پہنچانے والی نہیں۔
ہر آدمی اپنے سینے میں خواہشات کا ایک سمندر لئے ہوئے ہے۔ یہ خواہشات بجائے خود غلط نہیں۔ مگر ان خواہشات کی تکمیل کا مقام کَل کی دنیا ہے نہ کہ آج کی دنیا۔