جنت کا پیشگی تعارف
انسان بے شمار خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ خواہشیں اس کی زندگی کا سب سے زیادہ حسین سرمایہ ہوتی ہیں۔ آدمی ان خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر دوڑتا رہتا ہے۔ آخر کارہر آدمی صرف یہ دریافت کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کو پورا نہ کرسکا۔ ہر آدمی کا یہ مقدر ہے کہ وہ خواہشوں کی تکمیل سے پہلے بھی غیر مطمئن ہو اور بظاہر خواہشوں کی تکمیل کے بعد بھی غیر مطمئن رہے۔یہ انجام ہر ایک کے لیے مقدر ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔
اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی خواہشیں لامحدود ہیں، جب کہ موجودہ دنیا ایک محدود دنیا ہے۔ اس فرق نے اس بات کو ناممکن بنا دیا ہے کہ کوئی شخص موجودہ دنیا میں اپنی خواہشوں کا محل تعمیر کرسکے۔ اس دنیا میں خواہشوں کے ہر محل کا انجام یہی ہونا ہے کہ آخر کار وہ خواہشوں کا قبرستان ثابت ہو۔ تاہم انسانی خواہشوں کا ایک مثبت رول ہے۔ یہ خواہشیں در اصل جنت کا پیشگی تعارف ہیں۔ یہ خواہشیں بتاتی ہیں کہ جنت کی وہ دنیا کتنی پُر مسرت دنیا ہوگی جہاں یہ تمام حسین خواہشیں مکمل طورپر پوری ہوں۔
موجودہ دنیا میں کامیابی کا راز خواہشوں کی تنظیم (desire management) ہے نہ کہ خواہشوں کی تکمیل کی ناکام کوشش۔ موجودہ دنیا اس لیے نہیں ہے کہ یہاں آدمی اپنی جنت تعمیر کرے۔ یہ دنیا صرف اس لیے ہے کہ یہاں آدمی اپنے حسنِ عمل سے اپنے آپ کو جنت میں داخلہ کا اہل ثابت کرے۔ ان خواہشوں کو اگر مثبت مفہوم میں لیا جائے تو وہ جنتی عمل کے لیے گہرے محرک کا کام کرنے والی ثابت ہوں گی۔
ہماری خواہشیں (desires) ہماری کوشش کے رُخ کو بتاتی ہیں، وہ ہماری کوشش کی منزل کو نہیں بتاتیں۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ منزل قابلِ حُصول ہی نہیں۔ ہر آدمی کی زندگی کی ایک ہی داستان ہے۔ اوروہ ہے خواہشوں کی تکمیل کے پیچھے دوڑنا اور خواہشوں کی تکمیل کے بغیر مرجانا۔
مزید مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی خواہش کی تکمیل کے لیے اتنے زیادہ عوامل درکار ہیں کہ اُن عوامل کو یکجا کرنا انسان کے بس ہی میں نہیں، خواہ اس کوایک ہزار سال کی عمر مل جائے اور ساری دنیا کی دولت اور اقتدار اس کے کنٹرول میں ہوں۔ مثلاً انسان ایک گھر بنا سکتا ہے مگر وہ یہ نہیں کرسکتا کہ زمین میں زلزلے کی آمدکو روک دے۔ انسان اعلیٰ اہتمام کے ذریعے صحت مند جسم بنا سکتا ہے مگر اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ موت کے قانون کو بدل دے۔ انسان ہر قسم کی لذّتوں کو اپنے گرد جمع کرسکتا ہے، مگر اس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ لذتوں سے محظوظ ہونے کے بارے میں وہ اپنی محدودیت کو ختم کردے۔ انسان آسودگی کے ظاہری سامان اپنے گرد اکھٹاکر سکتا ہے مگروہ فطرت کے اُس قانون کو بدل نہیں سکتا جس کے تحت انسان کو بیماری اور حادثات جیسی چیزوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
اس تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے بس میں صرف کرنا ہے، انسان کے بس میں نتیجہ نہیں۔ کرنے کا اختیار انسان کو ہے مگر کرنے کے نتیجے میں ایک نئی دنیا کی تعمیر کا اختیار خالق کے سوا اور کسی کو نہیں۔ ایسی حالت میں جو شخص کرنے کے ساتھ یہ چاہتا ہے کہ وہ نتیجے کا محل بھی بنا ڈالے، وہ صرف غیر حقیقت پسندی کا ثبوت دے رہا ہے اور حقیقت پسندانہ سوچ کے تحت دنیا میں کوئی حقیقی نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔
اِس حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچیے تو صحیح بات یہ نظر آتی ہے کہ انسان اپنے اور خالق کے درمیان اس تقسیم پر راضی ہوجائے کہ کرنا میرا معاملہ ہے اور اس کا نتیجہ پیدا کرنا خالق کا معاملہ۔ اِس قانون کے مطابق، موت سے پہلے کا زمانہ انسان کے لیے عمل کرنے کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کا زمانہ خالق کی طرف سے عمل کا انجام پانے کا زمانہ۔
آدمی اگر اس حقیقت کا اعتراف کرلے تو اس کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوں گے۔ اوّل یہ کہ اس کا ٹینشن ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ ٹینشن نام ہے عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا۔ اور جب یہ فرق ختم ہوجائے تو ٹینشن بھی اپنے آپ ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کو اس امر کی یقینی ضمانت حاصل ہوجائے کہ موت کے بعد وہ اپنے عمل کا مطلوب انجام اس طرح پالے گا کہ ہمیشہ کے لیے وہ خوشیوں کے ایک صَدا بہار باغ کا مالک بن جائے۔