آئیڈیل دنیا
جٹ ایر ویز کی فلائٹ میگزین (Jet Wings) کے شمارہ اپریل ۲۰۰۵ء میں ایک مضمون چھپا تھا،جس کا عنوان یہ تھا—روڈ ٹو پَیراڈائز:
The Road to Paradise
سات صفحے کے اس با تصویر مضمون میں اُس کے رائٹرس (Gustasp and Jeroo Irani) نے بتایا ہے کہ انہوں نے انڈیا کے اَرونا چَل پردیش کے خوبصورت پہاڑی علاقے کاسفر کیا۔ انہوں نے بتایاکہ ہمالیہ کی اِس بلنددنیا میں ہر طرف فطرت کا حسن وافر مقدار میں موجود ہے۔ مگر اس علاقے میں سفر کرتے ہوئے بار بار تلخ تجربے بھی ہوتے ہیں۔ یہ علاقہ دُور سے دیکھنے میں تو بہت حسین معلوم ہوتا ہے لیکن وہاں کے راستوں میں چلنا اور وہاں کے مسائل سے نمٹنا پھول میں کانٹے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ ان تجربات کاتذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے لکھا تھاکہ ’’ہر جنت کا ایک سانپ ہوتا ہے:
Every Paradise has its serpent.
یہ مَثل بائبل کی ایک کہانی پَر مبنی ہے۔ اِس کہانی کے مطابق آدم کی جنت میں ایک سانپ بھی موجود تھا۔ مگر یہ کہانی درست نہیں۔ خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت میں کوئی ’’سانپ‘‘ نہیں۔ البتہ انسان بطورِ خود اپنے لیے جو عارضی جنتیں بناتا ہے ان میں سے ہر جنت میں ضرور ’’سانپ‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی جنت سانپ سے خالی نہیں۔
اصل یہ ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت تو ایک آئیڈیل جنت ہے۔ وہاں نہ حال کی کوئی تکلیف ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ وہاں نہ کوئی ڈِس ایڈوانٹیج ہے اور نہ کوئی محدودیت۔ وہاں نہ شور ہے اور نہ کسی قسم کی کثافت (pollution)۔وہاں نہ فساد ہے اور نہ کوئی تشدّد۔ یہ مکمل معنوں میں ایک معیاری جنت ہے۔
یہ ابدی جنت اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ منتخب لوگوں کو وہاں بسایا جائے۔ انسانوں میں سے جو افراد اعلیٰ خدائی معیار پَر پورے اُتریں اُن کو یہ جنت مَوت کے بَعد کے مرحلۂ حیات میں انعام کے طورپر دی جائے گی۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اس سے نکلنا نہ چاہیں گے۔اس ابدی جنت کی طلب ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر موجود ہے۔ ہر آدمی عین اپنی فطرت کے زور پر اس جنت کا طالب ہے۔ وہ ہر قیمت پر اس کو پانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔موت سے پہلے کی زندگی میں ہر عورت اور مرد اسی خوابوں والی ’’جنت ‘‘ کو بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ ہر عورت اور مرد کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خوابوں میں بسی ہوئی جنت کو بنائے اور اس کے اندر زندگی گذارے۔
مگر عملاً یہ ہوتا ہے کہ ہر عورت اور مرد کے حصے میں صرف جدوجہد آتی ہے، اس کا مطلوب نتیجہ کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ ہر عورت اور مرد اپنی خوابوں والی جنت کو پانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ڈریم لینڈ کو پائیں، اچانک ان کی موت آتی ہے اور وہ ناتمام آرزوؤں (unfulfilled wishes) کے ساتھ اگلی دنیا کی طرف چلے جاتے ہیں۔
کامیابی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ ہر آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کے دو مَرحلے ہیں— قبل ازموت مرحلۂ حیات اور بعد از موت مرحلۂ حیات۔ خالق نے جس چیز کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں رکھ دیاہو اس کو کوئی شخص قبل ازموت مرحلۂ حیات میں پانے والا نہیں۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننے کا نام سچائی کی دریافت ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کے اِن دو مرحلوں کو جانیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ آج کی دنیا اپنے آپ کو مستحق بنانے کی جگہ ہے اور کَل کی دنیا اپنے استحقاق کے مطابق اپنا انجام پانے کی جگہ۔ہر عورت اور مرد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ آج کی زندگی کو تیاری کا ایک موقع سمجھے۔ وہ اپنے وقت اور طاقت کا سب سے بڑا استعمال یہ سمجھے کہ وہ ابدی جنت میں داخلے کا خدائی معیار دریافت کرے۔ اور اِس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے تاکہ جب اس کو موت آئے تو وہ خدا کی ابدی جنت کا لائق امیدوار (qualified candidate) قرار پائے۔