کائناتی ماڈل

انسان اپنے آپ کو ایک وسیع کائنات میں پاتا ہے۔ یہ کائنات گویاایک بہت بڑا سماج ہے۔ انسان اس سماج کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ انسان کو بھی اپنی زندگی میں اُسی روش کو اپنانا ہے جس روش کو کائنات کے دوسرے اجزا عملاً اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی انسان کے لیے صحیح فطری طریقہ ہے اور اسی طریقہ میں انسان کی کامیابی کار از چھپا ہوا ہے۔

یہ کائناتی ماڈل کیا ہے۔ آپ خلا میں پھیلے ہوئے ستاروں اور سیاروں کو دیکھئے۔ ہر ستارہ اور سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے۔ ان میں سے کوئی کسی دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ اِسی ڈسپلن کی وجہ سے خلا میں ہر طرف امن قائم ہے۔ انسان کو بھی اپنے سماج میں عدم مداخلت (non-interference) کی اسی پالیسی کو اختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کے اندر یہ زندہ شعور ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے۔

اسی طرح درختوں کی دنیا کو دیکھئے۔ درختوں نے خاموشی کے ساتھ یہ نظام اختیار کررکھا ہے کہ وہ زندہ اجسام کی ضرورت پورا کرنے کے لیے مسلسل آکسیجن سپلائی کرتے ہیں اور زندہ اجسام سے نکلی ہوئی غیر مطلوب کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر لے لیتے ہیں۔ یہ ایک بے غرضانہ نفع بخشی کا نظام ہے۔ انسان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی اسی نظام کو اپنی زندگی میں اختیار کرے۔

اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ پہاڑوں سے پانی کے چشمے اوپر سے نیچے کی طرف جاری ہوتے ہیں۔ ان چشموں کے ساتھ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ راستہ میں ان کے سامنے ایسے پتھر آتے ہیں جو بظاہر ان کے سفر کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں۔ مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو ہٹا کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرے۔ اس کے بجائے وہ یہ کرتا ہے کہ وہ پتھرکے کنارے سے اپنا راستہ بنا کر آگے چلا جاتا ہے۔ یہ گویا اس بات کا پیغام ہے کہ—رکاوٹوں سے نہ ٹکراؤ بلکہ رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنی سرگرمی جاری کرو۔

اسی طرح حیوانات کی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بار بار ان کے درمیان کوئی نزاعی اِشو پیدا ہوتا ہے مگر ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ غُرّا کر یا سینگ مار کر وہ اس کو بھُلا دیتے ہیں اور جلد ہی وہ ایسے نارمل ہو جاتے ہیں جیسے کہ کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح انسان کو اپنے سماج میں رہنا ہے۔ سماجی زندگی میں بار بار ایسی چیزیں پیش آتی ہیں جو کسی عورت یا مرد کو ناگوار ہوتی ہیں۔ مگر ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ اس ناگواری کو وقتی بنا دے۔ وہ اس کو مستقل تلخی کی صورت نہ اختیار کرنے دے۔

فطرت کی دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں ہر چیز دوسروں کو کچھ دیتی ہے مگر وہ دوسروں سے اپنے لیے کچھ نہیں لیتی۔ مثلاً سورج یکطرفہ طور پَر اہلِ دنیا کو روشنی دیتا ہے مگر وہ اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کرتا۔ ہَوا مسلسل طورپر آکسیجن سپلائی کرنے کا کام کررہی ہے مگر وہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتی۔ اسی طرح موجودہ دنیا کی تمام چیزیں بلا معاوضہ لوگوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں، حالاں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز اپنی خدمت کے لیے اپنا بِل اُن لوگوں کے پاس روانہ نہیں کرتی جو اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔

اِس سے معلوم ہوا کہ آس پاس کی جو دنیا ہے وہ پوری دنیا ایک دینے والی دنیا (giver world) ہے، وہ لینے والی دنیا (taker world) نہیں۔ گویا کہ اس دنیا کا کلچر دینے والا کلچر(giver culture) ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز مسلسل یہ پیغام دے رہی ہے کہ دوسروں سے لیے بغیر دوسروں کو دینے والے بنو۔

انسان کو یہی دینے والا کلچر اپنانا ہے۔ اس کو اپنے معاشرے میں دینے والا بن کر رہنا ہے نہ کہ لینے والا۔انسان کے لیے اس کے گِردوپیش کی کائنات ایک وسیع ماڈل ہے۔ انسان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اس ماڈل کو اپنی زندگی میں اختیار کرے، صِرف اِس فرق کے ساتھ کہ انسان کے سوا بقیہ کائنات میں یہ ماڈل قانونِ فطرت کے تحت مجبورانہ طورپر قائم ہے۔ جب کہ انسان اِس کائناتی ماڈل کو اپنی زندگی میں شعوری طور پر خود اپنے اختیار کے تحت قائم کرے گا۔

اپنے آزادانہ اختیار کو کائناتی ڈسپلن کے تحت لانا، گویا اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کوبے اختیار کرلینا ہے۔ قانونِ فطرت کے مقابلے میں یہی سپردگی (submission) کا رویہ انسان کے لیے صحیح ترین رویّہ ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو انسان کو اپنے ابدی دورِ حیات میں کامیابی کا ضامن ہوگا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom