انسانی شخصیت
کیمسٹری کا پہلا سبق جو ایک طالب علم سیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز فنا نہیں ہوتی۔ وہ صرف اپنی صورت بدل لیتی ہے:
Nothing dies, it only changes its form.
اس عالمی کلیہ سے انسان کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس طرح مادہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ جلنے یا پھٹنے یا کسی اور حادثہ سے وہ فنا نہیں ہوتا بلکہ شکل بدل کر دنیا کے اندر اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ اسی طرح ہم مجبور ہیں کہ انسان کو بھی ناقابل فنا مخلوق سمجھیں اور موت کو اس کے خاتمہ کے ہم معنیٰ قرار نہ دیں۔
یہ محض بالواسطہ قیاس نہیں بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو براہ راست تجربہ سے ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پرعلم الْخَلِیَّہ (cytology) بتاتا ہے کہ انسان کا جسم جن چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے مل کر بنا ہے وہ مسلسل ٹوٹتے رہتے ہیں۔ ایک متوسط قد کے انسان میں ان کی تعداد تقریباً ۲۶ ٹریلین ہوتی ہے۔ یہ خلیے کسی عمارت کی اینٹوں کی طرح نہیں ہیں جو ہمیشہ وہی کے وہی باقی رہتے ہوں۔ بلکہ وہ ہر روز بے شمار تعداد میں ٹوٹتے ہیں اور غذا ان کی جگہ دوسرے تازہ خلیے فراہم کرتی رہتی ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ ظاہر کرتی ہے کہ اوسطاً ہر دس سال میں ایک جسم بدل کر بالکل نیا جسم ہو جاتا ہے۔ گویا دس برس پہلے میں نے اپنے جس ہاتھ سے کسی معاہدہ پر دستخط کئے تھے وہ ہاتھ اب میرے جسم پر باقی نہیں رہا۔ پھر بھی ’’پچھلے ہاتھ‘‘ سے دستخط کیا ہوا معاہدہ میرا ہی معاہدہ رہتا ہے۔ جسم کی تبدیلی کے باوجود اندر کا انسان پہلے کی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے۔ اس کا علم، اس کا حافظہ، اس کی تمنا ئیں، اس کی عادتیں، اس کے خیالات بدستور اس کی ہستی میں شامل رہتے ہیں۔ اسی لئے ایک حیاتیاتی عالم نے کہا ہے کہ انسانی شخصیت تغیر کے اندر عدم تغیر کا نام ہے:
Personality is changelessness in change.
اگر صرف جسم کے خاتمہ کا نام موت ہو تو ایسی موت تو ’’زندہ‘‘ انسانوں کے ساتھ بھی ہر روز پیش آتی رہتی ہے۔ ساٹھ سا ل کی عمر کا ایک شخص جس کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھتے ہیں، وہ جسمانی خاتمہ کے معنیٰ میں چھ بار مکمل طور پر مرچکا ہے۔ اب چھ بار کی جسمانی موت سے اگر ایک انسان نہیں مرا تو ساتویں بار کی موت سے کیوں اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو موت کے بعد بھی زندہ موجود رہتاہے۔ دوسری چیزیں اگر گیس کی صورت میں باقی رہتی ہیں تو انسان اپنے شعوری وجود کی صورت میں اپنی شخصیت کو باقی رکھتا ہے۔
موت کے بعدزندگی کے اور بھی بہت سے استدلالی قرائن ہیں ان میں سے ایک نُطْق (speech)ہے۔ انسان کا بولنا ایک انتہائی عجیب ظاہرہ ہے۔ نطق آدمی کی پوری شخصیت کی علامت ہے۔ یہ نطق حیرت انگیز طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔
آواز کی ریکارڈنگ کے جدید طریقو ں نے اس حقیقت کو ایک معلوم اور معروف چیز بنا دیا ہے۔۲۴؍ اگست ۲۰۰۰ کی صبح کی خبروں میں میں نے ریڈیو پر سنا کہ ہندستان کے مرکزی وزیر مسٹر کمار منگلم کا آج صبح سویرے دہلی میں انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد رات کو آٹھ بجے دوبارہ جب میں نے ریڈیو کو کھولا تو اس میں اس کی تفصیلی خبر کے ساتھ وفات یافتہ وزیر کا ایک بیان ان کی اپنی آواز میں سنایا جارہا تھا جو انہوں نے اپنی موت سے کچھ پہلے دیا تھا۔ جب میں نے ان کی آواز کو سنا تو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے ایک شخص جو مر گیا ـتھا وہ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے اور اٹھ کر لوگوں کے سامنے بول رہا ہے۔
نطق کے بارہ میں یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو جدید ریکارڈنگ کے دور میں ہر ایک کے سامنے آرہا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو انسان کو بتارہی ہے کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں، وہ زندگی کے اگلے مرحلے میں داخل ہونا ہے۔ وہ موجودہ دنیا میں مر کر موت کے بعد کی اگلی دنیا میں دوبارہ جی اُٹھنا ہے۔ انسانی زندگی کی درست منصوبہ بندی وہی ہو سکتی ہے جو موت کے بعد کی اگلی دنیا میں انسان کے ابدی دورِ حیات تک محیط ہو۔