خدا کا کِریشَن پلان

ایک مغربی فلسفی نے لکھا ہے کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس وسیع کائنات میں ایک اجنبی مخلوق ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ انسان اِس دنیا کے لیے بنایا گیا اور نہ دنیا اِس انسان کے لیے۔ انسان اورکائنات دونوں ایک دوسرے کے لیے بے جوڑ معلوم ہوتے ہیں۔

انسان لامحدود صلاحیتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں وہ اپنی ان صلاحیتوں کا صرف محدود استعمال پاتا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ہمیشہ جینا چاہتا ہے مگر بہت جلد موت اُس سے پوچھے بغیر آتی ہے اور یکطرفہ فیصلے کے تحت اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ انسان خواہشوں (desires) کا ایک سمندر اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے، مگر اس کی یہ خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ ہر آدمی کے دماغ میں خوابوں کی ایک دنیا بَسی ہوئی ہے، مگر یہ خواب کبھی اپنی تعبیر نہیں پاتے۔ اس معاملہ میں چھوٹے انسان اور بڑے انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مذکورہ فلسفی کے الفاظ میں، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی۔

انسان اور موجودہ دنیا دونوں ایک دوسرے کے لیے اس طرح غیر مطابق کیوں ہیں۔ اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہم کو خدا کے کریشن پلان (creation plan) کو جاننا ہوگا۔ یہ سوال دراصل خدا کے کریشن پلان کو نہ جاننے کی وجہ سے پیداہوا۔ اور خدا کے کریشن پلان کو جان کر ہی اس سوال کا تشفی بخش جواب معلوم ہوسکتا ہے۔

اصل یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اپنے ایک منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔ اس منصوبے کو جاننا انسان کی درست توجیہہ کے لیے ضروری ہے۔ جس طرح کسی مشین کی معنویت صرف اُس وقت معلوم ہوتی ہے جب کہ اس کے بنانے والے انجینیئر کا منصوبہ معلوم ہوجائے۔ انجینیئر کے ذہن کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو مشین کی معنویت کو واضح کرسکے۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔

انسان کو بنانے والے نے اس کو ایک خاص منصوبے کے تحت بنایا۔ وہ منصوبہ یہ ہے کہ موجودہ غیر معیاری دنیا میں آدمی ایک آزمائشی مدّت گذارے، اور اس کے بعد وہ اپنے عمل کے مطابق معیاری دنیا میں رہائش کا حق پاسکے، جس کا دوسرا نام جنت ہے۔

موجودہ دنیا ایک آزمائشی دنیا ہے۔ یہاں کسی عورت یا مَرد کو جنت کا مستحق بننے کے لیے جس اہلیت کا ثبوت دینا ہے، اس کے دو بڑے اَجزاء ہیں— حق کا اعتراف اور با اُصول زندگی۔ جو عورت یا مرد اس جانچ میں پورے اُتریں اُن کو جنت کی معیاری دنیا میں جگہ ملے گی۔ اور جو لوگ اس جانچ میں فیل ہو جائیں وہ ابدی طورپر محرومی کی زندگی گذاریں گے۔

موجودہ دنیا میں آدمی اپنے آپ کو پوری طرح آزاد پاتا ہے، مگر یہ آزادی بطورِ حق نہیں بلکہ وہ ہر ایک کے لیے آزمائش کا ایک پَرچہ ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی دباؤ کے بغیر سچائی کااعتراف کرے۔ وہ کسی جَبر کے بغیر حق کے آگے جھُک جائے۔ وہ اپنی آزادی کو خود اپنے اختیار سے پابندی بنا لے۔ حق کے آگے جُھکنا بلا شبہہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑی قربانی ہے۔ حق کا اعتراف کرنا بظاہر اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا کرنا ہے، مگر یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اونچا درجہ دینے والی ہے۔ وہ آدمی کو جنّت کے دروازے تک پہنچانے والی ہے۔

اس سلسلے میں دوسری چیز بااصول زندگی ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا کردار اُس کے جذبات کے تحت بنتا ہے۔ غصہ، انتقام، حسد، نفرت، مقابلہ پرستی وغیرہ۔ یہ وہ منفی احساسات ہیں جو کسی آدمی کی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ مگر آدمی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں بااُصول بنے۔ وہ خارجی محرکات کے تحت اپنا کیریکٹر نہ بنائے بلکہ اصول کے تحت اپنے کردار کا تعیّن کرے۔ وہ خود اپنے فیصلے کے تحت اپنی شخصیت کی تشکیل اعلیٰ اصولوں کی روشنی میں کرے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو جنتی کردار کہا جاتا ہے۔

تخلیق کا یہی منصوبہ ہے جس کے تحت انسان کو بنایا گیا ہے۔ انسان پوری کائنات کی سب سے اعلیٰ مخلوق ہے۔ انسان کا وجود ایک ایسا انوکھا وجود ہے جس کی کوئی دوسری مثال وسیع کائنات میں نہیں ملتی۔ انسان کو بجا طور پر اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ یعنی تمام پیدا کی ہوئی چیزوں میں سب سے زیادہ بہتر اور بامعنی وجود۔

جنت وہ دنیا ہے جہاں انسان جیسی مخلوق اپنی کامل تسکین پاسکے۔ جہاں انسان اُس طرح سوچے جس طرح وہ سوچنا چاہتا ہے۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو دیکھے جن کو دیکھنا اُسے مرغوب ہے۔ جہاں وہ اُن آوازوں کو سُنے جو حقیقی معنوں میں اُس کو لذتِ سماعت عطا کرنے والی ہو۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو چھوئے جن کو چھونا اُس کو اعلیٰ درجے کی لذّتِ لَمس عطا کرتا ہے۔ جہاں اُس کو ایسے لوگوں کی صحبت مِلے جن کی صحبت میں رہنا اُس کی زندگی کو آخری حد تک بامعنی بنانے والا ہے۔ جہاں کی ہوائیں اُس کے لیے حیات بخش جھونکے کی حیثیت رکھتی ہوں۔ جہاں وہ اُن چیزوں کو کھائے جن کو اُس کا ابدی ذَوق کھانا چاہتا ہے، اور اُن چیزوں کو پئے جن کو پینا آج اُس کے لیے صرف ایک حَسین تصور بنا ہُوا ہے۔

اس معیاری دنیا کا نام جنت ہے۔ یہی وہ جنت ہے جس کی تمنا ہر عورت اور مَرد کے دل میں بسی ہوئی ہے۔ یہی وہ جنت ہے جہاں انسان کی شخصیت پورے معنوں میں فل فِل مینٹ (fulfilment) حاصل ہوگا۔ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ اسی جنت کا طالب ہے۔ اور جنت اپنے پورے وجود کے ساتھ ایسے ہی انسان کا انتظار کررہی ہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ جنت اور انسان ایک دوسرے سے ملیں اور دونوں ایک دوسرے کو اپنا لیں جیسے کہ دونوں نے اپنے اُس جوڑے کو پالیا جو اُن کے لیے بنایاگیا تھا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom