طارق بن زیاد
طارق بن زیاد نے رجب - رمضان 92ھ (جولائی711ء) میں اسپین کو فتح کیا۔ کہا جاتاہے کہ طارق جب آبنائے جبرالٹر کے ذریعہ سمندر کو پار کر کے اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی فوج کو اسپینیوں سے جنگ پر اکساتے ہوئے کہا: أَيْنَ المَفَرُّ - الْبَحْرُ مِنْ .وَرَائِكُمْ وَالْعَدُوُّ إَمَامَكُمْ . فَلَيْسَ لَكُمْ وَاللَّهِ إلَّا الصِّدْقَ وَالصَّبْرَ . ۔ اب بھاگنے کی جگہ کہاں۔ سمند رتمہارے پیچھے ہے اور دشمن تمہارے آگے ہے۔ خدا کی قسم اب تمہارے لیے صدق اور صبر کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
حقائق کا گہرا تجزیہ بتا تا ہے کہ کشتیوں کو جلانے کا یہ قصہ محض داستان گو قسم کے لوگوں کی ایجاد ہے ، وہ کوئی تاریخی واقعہ نہیں۔ ایک عرب مصنف نے لکھا ہے کہ اسپین میں ایک مثل ہے کہ میں نے اپنی تمام کشتیاں جلا دیں ( أحرقت كلَّ سُفنی) اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی ساری طاقت خرچ کر دی۔ یعنی جنگ کر ویا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ (أی بذلت كل طاقتی ، بمعنی قاتلوا أو موتو) ممکن ہے کہ یہی اسپینی مثل عربی میں ترجمہ ہوئی ہو، اورپھر کچھ لوگوں نے اس کو لفظی معنی میں لے کر بطورِ خود کشتیوں کو جلانے کا افسانہ گھڑ لیا ہو۔
طارق بن زیاد کا قافلہ پہلی صدی ہجری کے آخر میں اسپین میں داخل ہوا ہے۔ اس زمانےکی معاصر تاریخ میں یا کسی بھی قریبی زمانے کی تاریخی دستاویز میں کشتیوں کے جلانے کا کوئی ذکر نہیں ۔ ابتدائی دور کی تمام کتا بیں اس کے ذکر سے خالی ہیں۔ یہ قصہ پہلی بار ان کتابوں میں ملتا ہے جو اصل واقعہ کے ساڑھے چار سو سال بعد چھٹی صدی ہجری میں لکھی گئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جس واقعے کی خبر معاصر مؤرخین کو یا قریبی زمانےکے تاریخ دانوں کو نہ ہو سکی، اس کی خبر سیکڑوں سال بعد کے مصنفین کو کیسے ہو گئی۔
طارق بن زیاد کے فتح اسپین (92ھ) کے بارے میں قدیم ترین ماخذ دو کتابوں کو ماناگیا ہے۔ یہ دونوں کتا بیں چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں۔ اور ان میں إحراق سفن (کشتیاں جلانے) کا مطلق کوئی ذکر نہیں۔ وہ کتا بیں یہ ہیں :
تاریخ افتتاح الاندلس ، ابن القوطيہ ، م 367ھ
اخبار مجموعہ ، مصنف کا نام لا معلوم ، یہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں لکھی گئی۔
ان کے علاوہ چوتھی صدی ہجری میں کئی مشہور مسلم مؤرخ گزرے ہیں ۔ مثلاً ابن عبدالحکیم (فتوح مصر والمغرب والاندلس ) عبد الملک بن حبیب (مبتدأ خلق الدنيا ) ابو بکر محمد القرطبی ( تاریخ افتتاح الاندلس) احمد بن محمد ، ابن الفرضی ( تاریخ علماء الاندلس )الخشنی (قضاة قرطبہ ) وغیرہ ۔ ان مؤرخین کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ طارق بن زیاد نے اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد اپنی کشتیوں کو آگ لگادی تھی۔ حتی کہ اس کے بعد پانچویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ علامہ ابن خلدون تک کے یہاں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ۔
احراق سفن (کشتیوں کو جلانے) کا واقعہ پہلی بار چھٹی صدی ہجری میں بیان کیا گیا ۔ ابومروان عبد الملک بن الکردبوس چھٹی صدی ہجری کا ایک مؤرخ ہے۔ اس نے اپنی کتاب تاریخ الاندلس میں اس قصے کو درج کیا۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ قصہ اس کو کس ذریعےسے معلوم ہوا۔ اس لیے آج ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس کے ماخذ کی تحقیق کریں۔
دوسرا شخص جس نے ابتداءً اس قصے کو بیان کیا وہ بھی چھٹی صدی ہجری کا ہے۔ یہ ابو عبد الله محمد الا در یسی (م 560ھ) اس نے نزھۃ المشتاق کے نام سے ایک کتاب لکھی اور اس میں احراق سفن کا قصہ درج کیا۔ مگر اس نے بھی اس کا کوئی ذریعہ نہیں بتایا۔ انھیں دونوں کتابوں سے لے کر دوسرے لوگوں نے اس قصہ کو نقل کرنا شروع کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو واقعہ لوگوں کو ساڑھے چار سو سال تک معلوم نہ تھا ، وہ ساڑھے چار سوسال بعد کس طرح لوگوں کے علم میں آگیا۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ قصہ سراسر فرضی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی دانش مند جنرل ایسا نہیں کر سکتا۔ اسپین میں قیام کے دوران طارق کا اتصال افریقہ (مغرب) سے برابر جاری رہا۔ اگر کشتیاں جلادی جاتیں تو یہ اتصال کیوں کر ممکن ہوتا۔طارق نے اسپین کے حالات کا اندازہ کرنے کے بعد موسٰی ٰ بن نصیر ( مقیم افریقہ )سے مدد طلب کی۔ چنانچہ موسی ٰ بن نصیر نے پانچ ہزار مزید فوجی بطور امداد روانہ کیے ۔ یہ پیغام رسانی اور سمندر میں لشکر کی منتقلی کشتیوں کے بغیر کیسے ممکن ہوئی۔
تاریخی تفصیلات
طارق بن زیا د رمضان ۹۱ ھ میں اسپین کے ساحل پر اترے تو ان کے ساتھ سات ہزار کا لشکر تھا۔ ساحل افریقہ اور اسپین کے درمیان دس میل کی آبنائے کو ، ان کے لشکر نے چارکشتیوں کے ذریعہ پار کیا تھا۔ اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانےکے ایک "مؤرخِ اسلام" لکھتے ہیں:
"اس سے اس زمانہ کے جہازوں کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنے بڑے تھے" ۔
موصوف نے قیاس کیا کہ پورالشکر ایک ہی بار چارکشتیوں پر لد کر دوسری طرف پہنچ گیا ہو گا۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ اس زمانہ میں ایسی کشتی وجود میں نہیں آئی تھی جس پر دو ہزار فوجی اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ بیک وقت بیٹھ سکیں۔ اصل یہ ہے کہ ان لشکریوں نے کئی پھیروں میں آبنائے طارق کو پار کیا تھا۔
ساتویں صدی عیسوی کے آخر یک مسلمانوں نے افریقہ کو بحر روم کے آخری ساحل تک فتح کر لیا تھا۔ بازنطینی سلطنت ایشیا اور افریقہ سے ختم ہو چکی تھی ۔ تاہم مراکش کے ساحل پر سبطہ اور اس کے مضافات کے علاقے اب بھی اسپینی گورنریلیان (کاؤنٹ جولین) کے قبضے میں تھے۔ یہاں رومیوں نے زبر دست قلعہ بنایا تھا۔ موسٰی ٰ بن نصیر نے اس کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی طاقت دیکھ کر بالآخر انھوں نے مصلحت یہ سمجھی کہ جولین سے صلح کرلیں اور اس ساحلی قلعہ کو اس کے قبضہ میں چھوڑ دیں۔ افریقہ سے باز نطینی سلطنت کے خاتمے کے بعد جولین نے اپنے سیاسی تعلقات اسپین کی عیسائی حکومت سے قائم کرلیے ۔ سبطہ اس وقت اندلس کا ایک سمندر پار صوبہ سمجھا جاتا تھا۔ اندلس سے برابر کشتیوں کے ذریعہ اس کو مدد پہنچتی رہتی تھی۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جو مسلمان اسپین کے ایک ماتحت گورنر سے خود اپنے مفتوحہ بر اعظم میں صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے ، انھوں نے سمندرپار کر کے خود اسپین پر حملہ کرنے کی جراٴت کس طرح کی۔ اس کا جواب زیر بحث مسئلہ کے تاریخی مطالعہ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔
415ء میں قوط (Visigoths) قبائل اسپین میں گھس آئے اور پانچ سو سالہ رومی سلطنت کو ختم کرکے وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ بعد کو ان لوگوں نے ٹھیک اسی طرح مسیحی مذہب کو اختیار کر لیا جس طرح ترکوں کے ایک گروہ بنو سلجوق نے مسلم دنیا پر قابض ہونے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ گاتھ کا مقصد اس تبدیلی ٔمذہب سے یہ تھا کہ مقامی عیسائیوں کو مطمئن کر کے اسپین میں اپنے سیاسی اقتدار کو مستحکم کریں۔ جس زمانے میں مسلمانوں نے بازنطینی اقتدار کو شام، مصر، فلسطین سے ختم کیا ، طلیطلہ (ٹالیڈو) پر گا تھ کا آخری بادشاہ وئیکا (فیطشہ) حکمراں تھا۔ وئیکا کی بعض کمزوریوں سے اس کے ایک فوجی افسر رذریق (Radrick) کو موقع ملا کہ وہ اس کی حکومت کا تختہ الٹ دے اور خود اسپین کا حکمران بن جائے۔
سبطہ کا گورنر جولین اگر چہ وئیکا کا رشتہ دار تھا ۔ تاہم اس نے مصلحت کے تحت اپنی وفاداریاں رذریق سے وابستہ کر دیں۔ مگر بعد کو ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے اس کو بے حد مشتعل کر دیا۔ اور اس کو اپنے بادشاہ کا مخالف کر کے مسلمانوں کے قریب کر دیا جو افریقی بر اعظم میں اس کے جغرافی پڑوسی تھے۔
اس زمانے میں اسپین کا حکمراں طبقہ بدترین قسم کی عیاشیوں کا شکار تھا۔ رواج کے مطابق امراءکی لڑکیاں عرصہ تک شاہی محل میں رکھی جاتی تھیں تاکہ شاہی آداب و قواعد کو سیکھ سکیں اور بادشاہ کی خدمت کریں۔ رذریق کے عہد میں جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی اسی رواج کے مطابق شاہی محل میں داخل ہوئی۔ لڑکی جوان ہوئی تور ذریق اس پر فریفتہ ہو گیا اور جبری طور پر اس کی عصمت دری کی ۔لڑکی نے کسی طرح اس واقعے کی اطلاع اپنے باپ کو دے دی۔
جولین کو اس واقعہ کا انتہائی صدمہ ہوا۔ اس نے قسم کھائی کہ جب تک رذریق کی سلطنت کو دفن نہ کرلے ، چین سے نہ بیٹھے گا۔ اولاًوہ طلیطلہ گیا اور لڑکی کی ماں کی بیماری کا بہانہ کر کے اس کو سبطہ واپس لایا۔ اس کے بعد وہ موسی ٰ بن نصیر سے ملا اور اس کو اکسا کر تسخیر اندلس پر آمادہ کیا۔ اس نے موسٰی کو اندلس کی اندرونی کمزوریاں بتائیں اور وعدہ کیا کہ وہ اور خود اندلس کے بہت سے لوگ اس مہم میں اسلامی فوج کا ساتھ دیں گے۔ یہ واقعہ 90 ھ کا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جولین نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اپنا نام مسلم رکھا تھا۔
اس کے بعد موسی ٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبد الملک سے خط و کتابت کی۔ کئی خطوط کے بعد ولید نے لکھا: " مسلمانوں کو خوفناک سمندر میں نہ ڈالو ۔ اگرتم پر امید ہو جب بھی ابتداءً تھوڑی سی فوج بھیج کر صحیح اندازہ کرو"۔
موسٰی نے رمضان ۹۱ ھ میں ایک شخص طریف کو ، جس کی کنیت ابوزرعہ تھی پہلی مہم کے طور پرپانچ سو آدمیوں کے ساتھ اسپین روانہ کیا۔ جو لین بھی ان کے ساتھ تھا۔ شمالی افریقہ کے ساحلی ملک مراکش اور اسپین کے درمیان صرف دس میل کا آبی فاصلہ ہے۔ ان لوگوں نے چارکشتیوں کے ذریعے اس کو عبور کیا اور دوسری طرف ساحل پر اتر گئے۔ یہ لوگ ساحلی علاقوں میں رہے اور وہاں کےحالات کا اندازہ کر کے دوبارہ واپس آگئے۔
اس کے بعد اگلے سال رمضان 92 ء میں طارق بن زیاد کی سرکردگی میں سات ہزار کا لشکر تیار کیا گیا۔ دس میل کی آبنائے کو پار کر کے جب وہ لوگ اسپین کے ساحل پر اترے تو کہا جاتا ہے کہ طارق نے اپنی تمام کشتیاں جلادیں ۔ مگر کشتیاں جلانے کا واقعہ بعد کا اضافہ شدہ افسانہ معلوم ہوتا ہے۔ اس زمانےمیں ، اور آج بھی ، فاتح کی داستانوں میں اس قسم کے اضافے عام رہے ہیں۔ ہمارے اس خیال کے لیے ایک قرینہ ہے کہ تاریخ اندلس کی قدیم کتابوں میں یہ واقعہ سرے سے مذکور نہیں ۔
بتایا گیا ہے کہ سمندر کو پار کر کے جب طارق بن زیاد اسپین کے ساحل پر اترے تو انھوں نے اپنے فوجیوں کو للکارا :
أَیُّهَا النَّاسُ . الْعَدُوُّ إَمَامَكُمْ وَالْبَحْرُ وَرَاءَكُمْ . وَلَيْسَ لَكُمْ وَاَللَّهِ إلَّا الْجَلْدَ وَالصَّبْرَ .
اے لوگو دشمن تمہارے سامنے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے ہے۔ تمہارے لیے خدا کی قسم اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ صبر کرو اور جم کر مقابلہ کرو۔
سپہ سالار کے یہ جوشیلے الفاظ سن کر لشکری چیخ اٹھے :
أِنَّا وَرَاءَكَ يَا طَارِقُ . طارق ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔
تمام تاریخوں کے متفقہ بیان کے مطابق مخالف فوجوں سے مقابلہ ساحل پر اترتے ہی فورا ً پیش نہیں آیا ۔ تھا۔ قیاس یہ ہے کہ یہ تقریر بعد کو اس وقت کی گئی ہے جب کہ عملاً مقابلہ پیش آیا ہے۔ اور فتح اندلس کے بعد جب تقریر کے الفاظ" سمندر تمہارے پیچھے ہے" لوگوں میں عام ہوئے تو قصہ گویوں نے اس میں اپنی طرف سے یہ اضافہ کر دیا کہ یہ تقریر کشتیوں کو جلانے کے بعد کی گئی تھی۔ شاید ان کے نزدیک سمندرکے پیچھے ہونے کے لیے ضروری تھا کہ سمندر اور فوجوں کے درمیان سے کشتیوں کو ہٹایا جا چکا ہو!
وائرلیس کے دورسے ایک ہزار سال پہلے سمندر پار کے ملک میں اترنے والا ایک کمانڈراس حقیقت سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا کہ اسپین کے ساحل پر اترنے کے بعد یہی کشتیاں وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے وہ اپنے مرکز سے مربوط رہ سکتا ہے۔ طارق اور موسٰی بن نصیر (گور نر افریقہ) کے درمیان پیغام رسانی کا دوسرا کوئی ذریعہ اس زمانے میں ممکن نہ تھا۔ یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ، ساحلِ اسپین پر اترنے اور مقابلہ پیش آنے کے درمیان تقریباً دو ماہ تک یہی کشتیاں تھیں جو دونوں کے درمیان باہمی ربط اور پیغام رسانی کا ذریعہ بنی رہیں۔
طارق جس مقام پر اترے اس کا نام قلۃ الأسد (Lion's rock) تھا۔ بعد کو وہ جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام سے مشہور ہوا۔ طارق اسپین کے جس ساحل پر اترے وہ اس وقت ایک غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں ایک دشوار گزار پہاڑی کو جائے پناہ قرار دے کر وہ لوگ اکھٹا ہوگئے ، تاکہ حالات کو سمجھ کر آئندہ کا نقشہ بنا سکیں۔ اسپین کا بادشاہ رذریق ان دنوں بنبلونہ (Pamplona) کی ایک جنگ میں مشغول تھا ، جہاں اس کے خلاف بغاوت ہو گئی تھی۔ اس کو جب طارق کے اسپین میں داخلہ کی خبر ملی تو اس نے حکم دیا کہ ایک لاکھ فوج جمع کی جائے تاکہ مداخلت کاروں کو با ہر نکالا جاسکے۔ طارق کا جاسوسی نظام بھی کام کر رہا تھا۔ انھیں جب رذریق کی تیاریوں کی خبر ملی تو انھوں نے فوراً اپنا ایک قاصد موسٰی بن نصیر (گورنر افریقہ )کے یہاں روانہ کیا اور مزید کمک کی درخواست کی۔ ادھر موسی ٰ بھی خاموش نہ تھے ۔ بلکہ مسلسل تیاریوں میں مشغول تھے۔ چنانچہ انھوں نے کشتیوں کے ذریعہ پانچ ہزار مزید سپاہی بھیج دیے۔ اس طرح طارق کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی۔
طارق نے پیغام رسانی کا یہ تمام کام کشتیوں کے ذریعہ کیا۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس زمانےمیں ممکن نہ تھا۔اور پھر یہ کشتیاں ہی تھیں جنھوں نے پانچ ہزار فوجیوں کی دوسری قسط کو اسپین کے ساحل پر اتارا ، جس کے بعد طارق اس قابل ہوگئے کہ وہ اسپین پر حملہ کر سکیں۔ طارق اگر اسپین کے ساحل پر اترتے ہی اپنی کشتیوں کو جلا دیتے تو یہ پیغام رسانی ممکن نہ ہوتی اور نہ مقابلہ کے وقت مزید کمک پہنچ سکتی۔
اس معرکہ میں جو لین بھی پوری طرح طارق کے ساتھ تھا۔ اس نے شاہ رذریق کے خلاف مقامی باشندوں کی ناراضگی سے فائدہ اٹھایا اور اپنے تعلقات کی بنیاد پر اسپینی شہریوں کی ایک جماعت طارق کی خدمت میں حاضر کر دی۔ ان لوگوں نے دشمن کی خبریں فراہم کرنے کا کام اپنے ذمہ لیا اور فوجی اعتبار سے کمزور مقامات کی اطلاع مسلمانوں کو دی اور مسلمانوں کی رہبری کرتے رہے ۔ یہ واقعہ بھی مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہو ا کہ تین سال (88-90ھ) تک اندلس میں سخت قحط پڑا تھا ، اس کی وجہ سے اتنے لوگ مرے کہ کہا جاتا ہے کہ اندلس کی آبا دی آدھی رہ گئی۔
مزیدیہ کہ رذریق کی ایک لاکھ فوج میں ایک عنصر ایسا بھی تھا جو سابق شاہ اسپین سے عقیدت رکھنےکی وجہ سے باغی رذریق کا اندر اندر مخالف تھا۔ ان کے فوجی سرداروں میں شسرت اور ابتہ بھی تھے جو سابق شاہ کے بیٹے تھے۔ انھوں نے اپنی خفیہ میٹنگ کی اور کہا :
"ر ذریق خبیث ہمارے ملک پر خواہ مخواہ مسلّط ہوگیا ہے ، حالاں کہ شاہی خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو ہمارے یہاں کے کمینوں میں سے ہے۔ رہے مسلمان ، وہ تو صرف وقتی لوٹ مار کے لیے آئے ہیں۔ اس کے بعد اپنے وطن کو واپس چلے جائیں گے۔ اس لیے مقابلے کے وقت اس خبیث کو زک دینے کے لیے ہم کو خود شکست کھا جانا چاہیے " ۔
رذریق کی فوج کے ایک حصہ نے نہایت سخت جنگ کی مگر غیر مطمئن فوجیوں نے جنگ میں زور نہیں دکھایا۔ بالآخر شکست ہوئی اور رذریق میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ اس کے بعد وہ نہ زندہ مل سکا نہ مردہ ۔ کہاجاتا ہے کہ بھاگنے کے دوران وہ ایک دلدل میں پھنس کر مر گیا۔
اسپین کے بعض علاقوں کو طارق نے فتح کیا۔ بعض کو مغیث رومی نے ، بعض کو موسی ٰ بن نصیر نے، جو بعد کو ۱۸ ہزار فوج کے ساتھ اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ رعایا کی اپنے بادشاہ اور سرداروں سے بیزاری کی وجہ سے ان کو خود اسپینیوں میں مددگار اور جاسوس ملتے چلے گئے۔ تمام مؤرخین لکھتے ہیں کہ غیر مسلم جاسوسوں نے اسپین کی ابتدائی فتوحات میں بہت مدد کی تھی۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے لکھا ہے کہ اسپین پر مسلمانوں کا حملہ گاتھ کی دعوت پر ہوا تھا نہ کہ محض اپنی تحریک پر ۔ ۷۰۹ میں وٹیزا (Witiza) کی موت سے اسپین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں رذریق کے مقابلہ میں وٹیزا کے خاندان نے موسی ٰ بن نصیر سے مدد چا ہی۔ اس کے بعد طارق 711 ء میں آبنائے جبرالٹر کو پار کر کے اسپین میں اترے اور رذریق کو فیصلہ کن شکست دی۔
اس کے بعد تعجب خیز طور پر اکثر ا سپینیوں نے رضا کارانہ طور پر اس کی اطاعت قبول کرلی۔ 20 ہزار کی ایک فوج کے ہاتھوں اس تیز رفتار فتح کا سبب غالباً یہ تھا کہ اس وقت اسپین کے لوگوں میں اتحادنہ تھا۔ مزید یہ کہ مسلمانوں سے اسپین کے لوگوں کو بہت فائدے پہنچے۔ مثلاً نئے حکمرانوں نے ان کے اوپر سے ٹیکس کا بوجھ کم کر دیا۔ نچلے طبقے کے لوگوں کو آزادی حاصل ہوگئی ۔ یہود پر عیسائیوں کی طرف سے ہونے والے مظالم ختم ہو گئے اور انہیں سماج کے اندر برابری کا درجہ مل گیا۔ اس طرح آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف حصہ میں مسلم ا سپین کے اندر ایک نیا اور بالکل مختلف سماج قائم ہو گیا (17/414)
نتیجۂ بحث
تاریخ، انسانی عمل کاریکارڈ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ حقائقِ حیات کا مطالعہ ہے۔ لیکن تاریخ کو اگر افسانہ بنا دیا جائے تو وہ ایک ایسا ذہنی کارخانہ بن جاتی ہے جس میں صرف خوش فہمی کی مہلک گولیاں تیار ہوتی ہوں ––––––– حقیقت یہ ہے کہ اسپین میں طارق بن زیاد کی کامیابی ایک سوچے سمجھے منصوبہ کانتیجہ تھی نہ کہ محض پر جوش اقدام کا نتیجہ۔
خدا کی یہ دنیا کوئی طلسماتی کارخانہ نہیں ہے۔ یہ نہایت اٹل اصولوں پر قائم ہے جن کو پوری طرح سمجھا اور جانا جا سکتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی واقعہ اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب کہ ان قوانین کے ساتھ مطابقت کرکے عمل کیا جائے جن پر موجودہ دنیا کا نظام چل رہا ہے۔
جو شخص یا قوم اپنے لیے کوئی حقیقی مستقبل دیکھنا چا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ فطرت کی اٹل بنیادوں کو جانے اور ان کے اوپر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اگر اس نے ایسانہ کیا تو خدا کی اس دنیا میں اس کا کوئی انجام نہیں ، خواہ اپنے طور پر وہ اپنے بارے میں کتنا ہی زیادہ خوش فہم ہو اور اپنی مفروضہ کا میا بی کو بتانے کے لیے اس نے کتنے ہی زیادہ شاندار الفاظ پالیے ہوں۔