دو تصویریں
ہندستان کے ایک مسلمان لیڈ رہیں۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں ۔ اور پچھلے دس برس سے اس ملک میں وہ سیاست چلا رہے ہیں جس کا نام انھوں نے "اپوزیشن کی سیاست" رکھا ہے۔ وہ ایک ماہانہ رسالہ نکالتے ہیں جس کا نام "مسلم ہندستان" مگر زیادہ صحیح لفظوں میں "ظالم ہندستان" ہے۔ اس پرچے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر مہینہ مسلمانوں کے اوپر ظلم و تعصب کی داستانیں چھاپی جاتی ہیں۔ لیڈر صاحب کے ہر بیان اور ہر تقریر میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ وہ پولیس کی گولیوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ انھیں زندگی کے ہر شعبہ سے دھکے دے کر نکالا جارہا ہے ۔ ان کے ملی تشخص کو مٹانے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ۔
دسمبر 1988 میں میں امریکہ کے سفر پر تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جو مذکورہ لیڈر کے ماہنامہ (مسلم ہندستان ) کے خریدار ہیں۔ اور اس کو برابر پڑھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ" اس ماہنامہ کو میں اس لیے پڑھتا ہوں تا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات معلوم ہو سکیں۔ اس ماہنامہ کو پڑھنے سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے کوئی اسکوپ نہیں۔ وہاں محرومی اور مظلومی کے سوا ان کا کوئی اور مقدر نہیں "۔ اس ماہنامہ کا خاص طریقہ یہ ہے کہ یہاں اگر ۹۹ پلس پوائنٹ ہوں تو وہ ان کا ذکر نہیں کرے گا، اور اگر ایک مائنس پوائنٹ مل جائے تو اس کو خوب نمایاں کر کے بیان کرے گا۔
مذکورہ مسلمان لیڈر کا ایک مفصل انٹرویو دہلی کے ایک اردو ہفت روزه(31 مارچ تا 6 اپریل 1989 ) میں چھپا ہے۔ میں نے اس انٹرویو کو پڑھا۔ اس کو پڑھتے ہوئے میں اس کے اس حصہ پر پہنچا جہاں انھوں نے انٹرویور کو اپنے گھر کے اندرونی حالات بتائے ہیں ۔" اب میں ذاتی بات آپ سے کہہ رہا ہوں۔ میرے ۶ بچے ہیں۔ جن میں پانچ لڑکیاں ہیں " –––– مسلمان لیڈر کے ان الفاظ کو پڑھ کر میں نے کچھ دیر کے لیے اخبار بند کر دیا۔ میں نے اپنے ذہن میں سوچنا شروع کیا کہ لیڈر صاحب نے اس کے بعد انٹر ویور سے کیا کہا ہو گا۔ انھوں نے اپنے بچوں کے بارےمیں کس قسم کی خبریں بتائی ہوگی۔لیڈر صاحب کے بیانات ، ان کی تقریروں اور تحریروں میں جس "مسلم ہندستان " کی تصویر پیش کی جاتی ہے ، اس کی روشنی میں میں نے سوچنا شروع کیا تو قیاسی طور پر جو بات میری سمجھ میں آئی وہ بڑی بھیانک تھی ۔
میں نے سوچا کہ لیڈر صاحب نے غالباً یہ خبر دی ہوگی کہ میرا ایک لڑ کا ہے۔ اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ یہاں کے اسکولوں اور کالجوں میں مارا مارا پھرا۔ مگر اس کو کہیں داخلہ نہیں ملا۔ اس کی تعلیم نا مکمل رہ گئی ۔ آخر مجبور ہو کر وہ رکشا چلانے لگا تا کہ کسی طرح اپنا پیٹ پال سکے۔
میرا لڑکا ماشاء اللہ پنج وقتہ نمازی ہے۔ ہمارے علاقہ میں ایک ویران مسجد تھی ۔ میرے لڑکے نے محلہ والوں کی مدد سے اس کو رنگ و روغن کرایا اور اس میں با قاعدہ نماز قائم کی ۔فرقہ پرست اور ملک دشمن عناصر کو یہ بات سخت نا پسند ہوئی۔ وہ ایک روز ہجوم کرکے آئے ۔ انھوں نے مسجد میں گھس کر میرے لڑکے کو بری طرح مارا پیٹا۔ اس کی داڑھی نوچی جس کو وہ اپنے مذہبی تشخص کے نشان کے طور پر نہایت عزیز رکھتا ہے۔ لڑکے کو بے ہوشی کی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا۔ وہاں وہ بہت دنوں تک زیرعلاج رہا۔
میری ایک لڑکی کو تعلیم کا بہت شوق تھا۔ کوشش کے باوجود اس کو اچھے انگریزی اسکول میں داخلہ نہیں ملا۔ مجبوراً اس کو ایک معمولی قسم کے اردو میڈیم اسکول میں داخل کرنا پڑا۔ لڑکی نے پاس کو رس سے بی اے کیا۔ اس کے بعد وہ ایم اے کرنا چاہتی تھی ۔ مگر داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ ایم اے نہ کرسکی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس کو کوئی اچھی سروس نہیں مل سکتی تھی۔ چنانچہ اب وہ گھروں پرجا جا کر اردو اور قرآن کا ٹیوشن کرتی ہے۔ اور اس طرح زندگی کے دن گزار رہی ہے۔
یہی میرے سب بچوں کا حال ہوا۔ ملک میں اندھے تعصب کی وجہ سے کسی کی بھی اچھی تعلیم نہ ہو سکی۔ میری تمام لڑکیاں ماشاء اللہ مذہبی ہیں۔ سب کی سب خدا کے فضل سے شرعی برقعہ پہنتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتی ہیں، ان کے برقعہ کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کے مذہبی تشخص پر حملے کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی اسکول یا کالج میں ان کو نہ داخلہ ملتا ہے اور نہ ملازمت۔
آخر کار میں نے اعلیٰ تعلیم سے مایوس ہو کر یہ طے کیا کہ لڑکیوں کی شادی کر دوں ۔ مگر جب میں اپنی لڑکیوں کے لیے مسلمان شوہر کی تلاش میں نکلا تومعلوم ہوا کہ یہاں تعلیم سے بھی زیادہ بڑی مشکلات حائل ہیں۔
ہندستان کی ظالم پولیس نے مسلم نوجوانوں کو صحیح سالم حالت میں باقی نہیں رکھا تھا۔ میں نے پایا کہ کسی مسلم نوجوان کا حال یہ ہے کہ اس کے پاؤں میں پولیس کی گولی لگی اور اس کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا ، جہاں ڈاکٹر نے اس کا ایک پاؤں کاٹ دیا۔ کسی مسلم نوجوان کو پولیس تھانہ میں لے گئی اور اس کے ساتھ اتنی زیادہ مار پیٹ کی کہ اس کا دماغی تو از ن خراب ہو گیا۔ کسی مسلم نوجوان کو پولیس نے رائفل کے کندوں سے مار مار کر اس کا ہاتھ توڑ ڈالا۔ میری تلاش نے مجھے بتا یاکہ قوم کے نوجوانوں کو پولیس نے یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، اور جوزندہ بچے ہیں وہ بھی اس حال میں ہیں کہ ان کا جسم اور ان کے اعضاء صحیح سالم نہیں۔
مجھ کو بہر حال اپنی لڑکیوں کی شادی کرنی تھی۔ میں نے اللہ کا نام لے کر انھیں مظلوم اور معذور نوجوانوں میں سے کچھ نوجوانوں کو منتخب کیا اور ان کا نکاح اپنی لڑکیوں کے ساتھ کر دیا۔ اب میرے گھر کا حال یہ ہے کہ وہ بیک وقت معذور خانہ بھی بنا ہوا ہے اور اسی کے ساتھ غریب خانہ بھی۔ میراگھر اس "مسلم ہندستان" کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے جس کا زیادہ بڑا نقشہ میں ہر مہینہ اپنےپرچہ میں دکھاتا ہوں۔
میری لڑکیاں اپنے لنگڑے لولے شوہروں کے ساتھ اس طرح رہ رہی ہیں کہ ان کی زندگیاں خوشیوں سے خالی ہو چکی ہیں۔ آسمان نے کبھی ان کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں اپنے بچوں اور اپنے دامادوں سے کہتا ہوں کہ گھبراؤ نہیں ، جو دنیا میں کھوئے وہ آخرت میں پاتا ہے۔ جو انسانوں کی طرف سے محروم کیا جائے اس کو خدا کی طرف سے سرفرازی عطا کی جاتی ہے۔
لیڈر صاحب کے اپنے بیانات کی رو شنی میں میں نے ان کے گھر کی یہ قیاسی تصویر بنائی اور اس کے بعد دوبارہ اخبار کھولا اور لیڈر صاحب کے انٹرویو کا بقیہ حصہ پڑھنا شروع کیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ لیڈر صاحب کے گھر کا نقشہ اس نقشہ سے سراسر مختلف ہے جو میں نے قیاسی طور پر سمجھا تھا ۔ ناقابل فہم حیرانی کے ساتھ مجھے ایسا محسوس ہوا گویاوہ اس "مسلم ہندستان "میں نہیں ہیں جس کی خبر وہ صبح و شام اپنے ہم قوموں کو دیتے رہتے ہیں۔ بلکہ وہ ایک اور ملک میں ہیں جو ان کے بیانات والے ملک سے یکسر مختلف ہے۔ انٹرویو کے مطابق لیڈر صاحب کے الفاظ یہ تھے:
" اب میں ذاتی بات آپ سے کہہ رہا ہوں۔ میرے 6 بچے ہیں۔ جن میں پانچ لڑکیاں ہیں۔ اور ہمارے سماج میں جس کی اتنی لڑکیاں ہوں ، اس کے لیے کتنی پریشانیاں ہوتی ہیں ، اس کا احساس آپ کو بھی ہوگا۔ میں نے ایک ہی بات کا وعدہ اپنی اہلیہ سے کیا کہ کچھ ہو جائے ، ہم بھوکے مریں ، مگر بچوں کی تعلیم پر اثر نہیں ہونے دیں گے۔ آج دس برس بعد اللہ کے فضل سے میری بڑی بیٹی کی شادی ہو گئی۔ اس کا شوہر آئی اے ایس آفیسر ہے۔ دوسری بیٹی کی شادی ہو گئی اور اس کا شوہر ایم ڈی ہے۔ میرا لڑکا امریکہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی کی سب سے مایہ ناز ڈگری آپریشن ریسریچ میں پی ایچ ڈی ہے۔ اس کے بعد کی میری لڑکی اللہ کے فضل سے ڈاکٹر ہو چکی ہے ، اور آج وہ دہلی میں ہاؤس سرجن ہے۔ اس کے بعد کی لڑکی آئی آئی ٹی سے دو مہینوں میں انجینئر نگ کا کورس مکمل کرلے گی ۔ وہ وہاں کی ٹاپر ہے۔ آج اس کے سامنے دسیوں ملازمتوں کے آفر ہیں۔ اور میری آخری اولاد دہلی یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز کے دوسرے سال میں ہے" ۔
یہ دیکھ کر مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ لیڈر صاحب اگر چہ اسی ملک میں رہتے ہیں ، مگر ان کےگھر کا حال اس مسلم ہندستان (یا ظالم ہندستان) سے سراسر مختلف ہے جس کی خبر وہ دنیا کو اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ پچھلے دس سال سے دے رہے ہیں ۔ ان کے بیانات کے مطابق ،" مسلم ہندوستان " میں مسلمان صرف ایک بر باد شده قوم بنا دیے گئے ہیں۔ مگر اسی "مسلم ہندستان" میں ان کا اپنا گھر ترقی اور خوش حالی کی اعلیٰ شاہراہ پر گامزن ہے۔
1989 میں مذکورہ مسلمان لیڈر کے سیاسی کیر یئر کے دس سال پورے ہو گئے ۔ اس دس سال میں ، خود ان کے اپنے بیان کے مطابق، ان کے " ۶ بچوں" کا مستقبل اتناشاندار ہو چکا ہے کہ وہ خود اس پر فخر کرتے ہیں۔ مگر اسی دس سال میں ملت کے بچوں کا حال یہ ہے کہ دوبارہ ، خودان کے اپنے بیان کے مطابق، وہ بدستور ظالمانہ تعصب کا شکار ہیں۔ ان کے سینے اب بھی پولیس کی گولیوں سے چھلنی کیے جارہے ہیں۔ گویا شاعر کے الفاظ میں:
دو پھول ساتھ پھولے قسمت جد اجدا ہے نوشہ نے ایک پہنا اک قبر پر چڑھا ہے
اس فرق کار از کیا ہے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آیا جو نومبر 1987میں میرے ساتھ پیش آیا تھا۔ میں ہندستان کے ایک شہر میں چند روز کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہاں میرا قیام ایک ہوٹل میں تھا۔ ایک مقامی مسلمان لیڈر مجھ سے ملنے کے لیے میرے کمرے میں آئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ میں آپ کا الرسالہ ہر ماہ پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں۔مگر آپ مسلمانوں کو جو سبق پڑھا رہے ہیں ، وہ بزدلی کا سبق ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہزیمت، شکست، احساس محرومی اور ما یوسی کی طرف لے جا رہا ہے۔ مجھے آپ کے اس نظریہ سے سخت اختلاف ہے۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ چلیے ، آپ کو شہر کی سیر کرادیں۔ اس کے بعد وہ مجھ کو اپنی نئی ماروتی کار پر بیٹھاکر شہر کے مختلف حصوں کو دکھاتے رہے۔ راستہ میں انھوں نے بتایا کہ میں یہاں کی میونسپل کمیٹی میں نائب چیئر مین ہوں۔ میں نے کہا کہ اس شہر میں مسلمانوں کی تعداد بمشکل 5 فی صد ہوگی۔ ایسی حالت میں آپ میونسپل انتخابات میں کس طرح کامیاب ہوتے ہیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : اپنے ذاتی معاملہ میں میری پالیسی وہی ہے جو الرسالہ کی پالیسی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ میں یہاں کے ہندوؤں سے ہمیشہ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آتا ہوں ۔ ان کے کام آنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مقامی پولیس اور انتظامی افسران سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔ برادران وطن کو مختلف مواقع پر تحفے تحائف بھی دیتا رہتا ہوں۔ اس لیے یہاں کے سب لوگ مجھ سے خوش ہیں۔ مجھ کو مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں کے بھی کافی ووٹ ملتے ہیں۔ کوئی بات ناخوش گواری کی ہو تو میں اس کی پروا نہیں کرتا۔
اب مذکورہ مسلمان لیڈر کی کامیابی کا راز میری سمجھ میں آگیا ۔ میں نے جان لیا کہ انٹرویو دینے والے لیڈر صاحب کا معاملہ بھی یقیناً یہی ہے۔ لیڈری کے اسٹیج پر تو وہ اپنی وہ پالیسی چلاتے ہیں جس کو وہ "اپوزیشن کی سیاست" یا احتجاجی سیاست کہتے ہیں۔ مگر اپنے گھر اور اپنے بچوں کےمعاملے میں وہ عین اسی طریقہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس کی نشان دہی الرسالہ میں تقریباً پندرہ سال سے کی جارہی ہے۔ یعنی حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنا اور حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اپنے معاملات کو درست کرنا۔ با ہر وہ الرسالہ کے مخالف ہیں اور اندروہ اس کو اپنا پیرو مرشد بنائے ہوئے ہیں۔
لیڈر صاحب نے اپنے انٹرویو میں اس بات کی تردید کی ہے کہ اس وقت ہندستان میں جو حالات ہیں ، اس کے باقی رہتے ہوئے بھی مسلمان ترقی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں ، ان کی موجودگی میں بھی مسلمان اپنے لیے ایک بہتر دنیا کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں: مسلمان ایجی ٹیشن کی سیاست چھوڑ کر اگر صرف تجارت کریں تو یہاں کوئی انھیں تجارت کرنے نہیں دے گا۔ مسلمان اگر صرف تعلیمی جد و جہد میں مصروف ہونا چاہیں ، تو انھیں تعلیمی جدوجہد کی اجازت نہیں ملے گی۔ اس ملک میں جو یلغار ہے، وہ ہمارے پورے وجود پر ہے۔ اس میں اقتصادی، سماجی، سیاسی سارے حقوق اور اختیارات شامل ہیں۔ سیاسی تبدیلی لائے بغیر اور حقوق کی مانگ کے بغیر مسلمانوں کو اس ملک میں کچھ نہیں ملے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ وہی "مسلم ہندستان " جس میں عام مسلمانوں کے لیے ، لیڈر صاحب کے بیان کے مطابق ، ترقی کے مواقع بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ یہاں موجودہ حالات میں مسلمانوں کو کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ مگر اسی مسلم ہندستان میں خود ان کا اپنا خاندان جو بچوں اور ان کے متعلقین کو ملاکر ایک درجن سے زیادہ افراد پرمشتمل ہے ، وہ کیسے کامیاب ہو گیا۔ کس طرح اس نے اسی ظالم ہندستان میں اپنے لیے قابل رشک حد تک ایک شاندار مستقبل تعمیر کر لیا۔
مذکورہ مسلمان لیڈر نے اپنے انٹرویو میں بتایا ہے کہ انھوں نے طے کیا کہ" ہم بھو کے رہیں گے مگر ہم اپنے بچوں کو پڑھائیں گے "۔ لیڈر صاحب نے اس پر باقاعدہ عمل کیا۔ ان کا کامیاب تجر بہ بتاتا ہے کہ یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ " مسلم ہندستان " کا ایک باشندہ "بھو کا " رہ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلا سکے ۔ حتی کہ صرف دس برس میں ان کا شاندار مستقبل بن کر کھڑا ہو جائے۔ دس سالہ محنت کے بعد اس کا اپنا پیٹ بھی بھر جائے اور اس کے تمام بچوں کا بھی۔
لیڈر صاحب کے مذکورہ جملہ (ہم بھوکے رہیں گے مگر اپنے بچوں کو پڑھائیں گے) پر میں نے غور کیا تومعلوم ہوا کہ اس ایک جملے کے اندر معانی کا پوراخز انہ ہے۔ اس کے اندر زندگی کی تعمیر کازبر دست راز چھپا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کو الرسالہ کے ذریعہ مسلسل طور پر مسلمانوں کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زندگی کی تعمیر کا یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کو راقم الحروف نے اپنے آرٹیکل مطبوعہ ٹائمس آف انڈیا ( 15ستمبر 1987) میں ان لفظوں میں بیان کیا تھا کہ مسائل کو بھوکا رکھو ، مواقع کو کھلاؤ :
Starve the problems, feed the opportunities.
لیڈر صاحب نے ، الرسالہ کے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ، اپنے بچوں کو سکھایا کہ مسائل کو بھلاؤ اور مواقع کو استعمال کرو ۔ حقوق طلبی کا جھنڈ امت اٹھاؤ بلکہ محنت کے ذریعہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرو۔ شکایت اور احتجاج کو چھوڑ دو اور مثبت ذہن کے تحت کام کرو۔ حالات سے لڑنے کی حماقت نہ کرو بلکہ حالات سے مطابقت کر کے اپنے مستقبل کی تعمیر کرو۔ ملک کے اندر غیر موافق پہلو بھی ہیں اور موافق پہلو بھی۔ تم لوگ غیر موافق پہلو کو نظرانداز کرو اور جو موافق پہلو ہیں ان پر اپنی ساری توجہ لگا دو۔ تم ٹکراؤ کے بجائے ایڈ جسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کرو۔
ایک لفظ میں یہ کہ میں گھر کے باہرلیڈری کے اسٹیج پر الرسالہ کے اصول کی مخالفت کروں گا، اور تم لوگ گھر کے اندر الرسالہ کے اصول کو دانتوں سے پکڑ لو ۔ کیوں کہ یہاں کے حالات میں لیڈرانہ مقام الرسالہ والے طریقہ کی مخالفت کرنے میں ملے گا، اور حقیقی کامیابی اس کے طریقہ کو اختیار کرنے میں۔ یہی دو طرفہ تکنیک ہے جس نے بیک وقت دونوں کو کامیاب و با مراد کر دیا ہے،لیڈر کو بھی اور لیڈ ر کے تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی ۔
مسلمان لیڈر نے غالباً اسی مصلحت کی خاطر مزید اہتمام یہ کیا کہ اپنے تمام بچوں کو انگلش اسکولوں میں داخل کر کے پڑھایا۔ انھوں نے اپنے کسی بچہ کو اردو میڈیم اسکول میں تعلیم نہیں دلائی ۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے مفروضہ مسلم ہندستان (یا ظالم ہندستان) کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ مسلمانوں کے وہ "زرد اخبارات " ہیں جو اردو زبان میں شائع ہوتے ہیں۔ بچوں نے اگر اردو جان لی تو وہ اردو کے زرد اخبارات پڑھیں گے ، اور پھر ان کا ذہن غیر ضروری طور پر شکایت اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو جائے گا۔ وہ دوسرے مسلمان بچوں کی طرح سڑکوں پر مظاہرے کریں گے اور خواہ مخواہ پولیس کی گولیاں کھائیں گے۔ اس لیے عقل مندی یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اردو زبان سےنا واقف رکھا جائے تاکہ وہ نہ اردو زبان کے زرد اخبارات پڑھیں اور نہ اس مفروضہ ہندستان کو جان سکیں جہاں مسلمانوں کے لیے احتجاج اور ایجی ٹیشن کے سوا کچھ اور کرنے کا موقع ہی نہیں۔ جب بانس ہی نہ ہوگا تو بانسری کہاں سے بجے گی۔
یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ یہ صرف ایک مسلم لیڈر کی بات نہیں ، یہی تقریباً تمام مسلم لیڈروں اور رہنماؤں کی بات ہے ، خواہ وہ بے ریش رہنما ہوں یا با ریش رہنما۔ ان میں سے ہر ایک کا معاملہ وہی ہے جو اوپر کی مثال میں مذکورہ لیڈر کا نظر آتا ہے۔ یہ لوگ دوسروں کے سامنے الرسالہ کی مخالفت کرتے ہیں ، مگر خود وہ دل و جان سے الرسالہ کو اپنا پیرو مرشد بنائے ہوئے ہیں۔وہ ظاہری طور پر الرسالہ کے طریقہ کو غلط بتاتے ہیں۔ مگر اندرونی طور پر وہ اپنے بچوں کو اور اپنی زندگی کے تمام ذاتی معاملات کو الرسالہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلا رہے ہیں۔
یہی وہ دو طرفہ کر دار ہے جس کو فارسی شاعر نے تمثیلی طور پر ان لفظوں میں بیان کیا تھا کہ وہ بظاہرمَے کا انکار کرتے ہیں، مگر عملاً وہ خود بھی مے پرستوں ہی کے رنگ میں جیتے ہیں:
منکر مَے بودن و ہم رنگ مستان زیستن
یہ تقسیم کیسی المناک ہے کہ مسلمانوں کے نام نہا دلیڈروں نے اپنے لیے زندگی کا انتخاب کیا ہے ، اور عوام کے لیے موت کا۔ ایک لفظ میں یہ کہ ––––– جنھیں مرنا نہیں وہ للکارتے ہیں ، اورجو للکارتے نہیں وہ مارے جاتے ہیں۔
کتنے ہوشیار ہیں مسلمانوں کے لیڈر ، اور کتنے نادان ہیں ان کے مسلمان پیر و جو کھلے ہوئے استحصال کو دیکھتے ہیں ، پھر بھی پوری وفاداری کے ساتھ ان کے پیچھے چلے جارہے ہیں۔اتنا عجیب منظر شاید اس سے پہلے آسمان نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔