فرضی کہانی
سلمان رشدی (42سال) کی کتاب شیطانی آیات (The satanic Verses)جو 547 صفحات پر مشتمل ہے،اس پر نیویارک کے ہفت روزہ ٹائم (13 فروری1989)میں تبصرہ شائع ہوا ہے۔تبصرہ نگار مسٹر پال گرے (Paul Gray) کا کہنا ہے کہ کتاب کے خلاف مسلمانوں کی عوامی احتجاجات (Public protests) غیر ضروری تھے۔راقم الحروف بھی اس قسم کے احتجاج اور شور و غل کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔کتّا اگر ہاتھی پر بھونکے تو ہاتھی کتّے پر نہیں بھونکتا ۔کیوں کہ ہاتھی کی عظمت بذات خود کتّے کی ہر بھونک کا جواب ہے۔ اور جب چپ کی زبان کافی ہو تو بولنے کی زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ۔
تاہم اس سلسلے میں تبصرہ نگار نے جو تو جہیہ کی ہے ، اس تو جیہہ سے مجھے اتفاق نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ کتاب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ تاریخ کی جگالی (Rumination on history) ہے۔ بالفاظ دیگر، وہ اصلاً تاریخی واقعات پر مبنی ہے ، اور جب ایسا ہے تو اس کے خلاف ہنگامہ اور احتجاج کیوں۔ مگر یہ مفروضہ بذات خود واقعہ کے مطابق نہیں کہ کتاب میں جو باتیں درج ہیں ان کی بنیاد کسی تاریخی واقعہ پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے بھی افسانہ ہے اور اپنی تاریخی بنیاد کے اعتبار سے بھی افسانہ ۔
تبصرہ نگار لکھتے ہیں کہ کتاب میں جبریل اور محمد کے درمیان تبادلۂ کلام ، بظاہر بگڑے ہوئے اور خیالی انداز میں، ایک قصہ پر مبنی ہے جو محمد کی زندگی میں پیش آیا۔ پیغمبر ابتدا ءً اس پر راضی ہوئے کہ عرب کی تین دیویوں کا اعتراف قرآن میں شامل کر دیں، اور بعد کو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ آیتیں شیطان کی الہام کی ہوئی تھیں ۔ اگر محمد خود یہ اقرار کرنے کے لیے تیار تھے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس قدیم گزرے ہوئےواقعہ کا مماسی اور افسانوی بیان آج کیوں اتنے ہنگامے کا سبب بن جائے :
The Gibreel-Mahound exchanges are based, in an obviously distorted and hallucinatory manner, on an episode in the life of Muhammad: the Prophet's early willingness to include in the Quran an acknowledgment of three female deities and his later repudiation of these verses as satanically inspired. If Muhammad himself was willing to admit that he had been deceived, it is difficult to see why a tangential, fictional version of this long-ago event should cause such contemporary furor (p. 42).
اس اقتباس میں جس "واقعہ" کا ذکر ہے ، وہ سورہ النجم سے تعلق رکھتا ہے ۔ متعلقہ آیتیں حسب ذیل ہیں :
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰى وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْاُنْثٰى تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى
(النجم 19-22)
کیا تم نے لات اور عُزیٰ کو دیکھا۔ اور تیسرے ایک اور منات کو ۔ کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور خدا کے لیے بیٹیاں۔ یہ تو بہت بے ڈھنگی تقسیم ہے۔
قدیم عرب میں تین بڑے بُت تھے ––––– لات ، عزیٰ ، اور منات ۔ ان بتوں کو اس زمانہ میں بہت بڑی چیز سمجھا جاتا تھا۔ ان بتوں کی بڑائی بیان کرنے کے لیے لوگوں نے طرح طرح کے کلمات وضع کر رکھے تھے ۔ یاقوت الحموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ قریش کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہ الفاظ کہا کرتے تھے : و اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى هؤلاء الْغَرَانِيقُ الْعُلَى، وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجَى (قسم ہے لات اور عزیٰ کی اور تیسرے منات کی ۔ یہ سب بلند مرتبہ ہیں۔ ان کی سفارش ضرور متوقع ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں سورہ نجم کی مذکورہ آیتیں اتریں تو آپ نے حسب ِمعمول ایک مجمع میں ان کو سنایا۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کچھ مشرک لوگ بھی موجود تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جب یہ الفاظ نکلے : أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى تو بعض مشرکین نے اس میں اپنے الفاظ ملادیے۔ اپنے بتوں کے نام سن کر وہ فوراً وہ الفاظ بول پڑے جو ان بتوں کی نسبت سے پہلے سے ان کے یہاں رائج تھے اور جن کو وہ ان بتوں کے نام کے ساتھ جوڑ کر کہا کرتے تھے ۔ وہ الفاظ یہ تھے : تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى، وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجَى -
ان دوسرے الفاظ کا کوئی بھی تعلق پیغمبر اسلام سے نہ تھا۔ آپ نے تو صرف اول الذکر الفاظ (أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى) فرمائے تھے ۔ ثانی الذکر الفاظ (تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى، وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرْتَجَى)تمام تر مشرکین کے الفاظ تھے جن کو انھوں نے آواز میں آواز ملا کر اپنی طرف سے کہہ دیا۔ یہی بات بعض مفسرین نے ان الفاظ میں کہی ہے :
«أَنَّ الشَّيْطَانَ أَوْقَعَ فِي مَسَامِعِ الْمُشْرِكِينَ ذَلِكَ فَتَوَهَّمُوا أَنَّهُ صَدَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَلَيْسَ كَذَلِكَ فِي نَفْسِ الْأَمْرِ، بَلْ إِنَّمَا كَانَ مِنْ صَنِيعِ الشَّيْطَانِ لَا مِنْ رَسُولِ الرَّحْمَنِ صلى الله عليه وسلم» «تفسير ابن كثير - ط العلمية» (5/ 389)
شيطان نے مشرکوں کے کان میں یہ الفاظ ڈال دیے ۔ پس مشرکوں نے گمان کر لیا کہ یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا ہوا ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ وہ در اصل شیطان کاکلام تھا نہ کہ رسول رحمان کا کلام –
یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اس قسم کے واقعات کسی نہ کسی شکل میں ہر شخص کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً حکمراں پارٹی کا لیڈر ایک بار تقریر کر رہا تھا۔ مجمع میں اس کی پارٹی کے لوگ بھی تھے اور دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی۔ تقریر کے دوران ایک بارلیڈر نے (بطور تنقید ) مخالف پارٹی کے لیڈرکا نام لیا ۔ مخالف پارٹی کے آدمیوں نے جب اپنے لیڈر کا نام سنا تو عین اسی وقت وہ "زندہ باد ،زنده باد" کے نعرے لگانے لگے ۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ حکمراں پارٹی کے لیڈر نے مخالف پارٹی کے لیڈر کے لیے زندہ باد کہا تو یہ غلط ہوگا۔ کیوں کہ حکمراں پارٹی کے لیڈر نے تو اس کا نام محض تنقید کے لیے لیا تھا ، یہ در اصل مخالف پارٹی کے لوگ تھے جو اس کی آواز میں اپنی آواز ملا کر زندہ باد کے الفاظ بولنے لگے ۔
واقعے کی سادہ شکل وہی ہے جو او پر نقل کی گئی ۔ مگر اسلام کے کچھ مخالفوں نے اس واقعے کوغلط صورت دے کر ایک خود ساختہ کہانی بنائی۔ انھوں نے مشرکین کے قول کو پیغمبر کا قول قرار دیدیا۔ اور کہا کہ پیغمبر اسلام پر سورۃالنجم اتاری جارہی تھی جب اس کا سلسلہ مَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى تک پہونچا تو اس کے بعد شیطان نے مذکورہ الفاظ آپ پر القاء کر دیے ۔ آپ نے قرآن کی آیت کے ساتھ اس کو ملا کر مجمع میں پڑھ دیا۔ بعد کو آپ کو غلطی کا احساس ہوا تو آپ نے اعلان کیا کہ مذکورہ کلام خدا کا کلام نہیں تھا۔وہ شیطان کا کلام تھا۔ یہ کہہ کر اس کو قرآن سے حذف کر دیا۔
یہ ساری کہانی جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، بالکل لغو ہے ، اور اس سے بھی زیادہ لغو بات یہ ہے کہ اس کو تاریخی حیثیت دے کر اس کی روشنی میں ایک پورا افسانہ بنایا جائے اور اس کی بنیاد پر پورے قرآن کو کلام خداوندی کےبجائے ، نعوذ باللہ ، کلام شیطانی قرار دینے کی کوشش کی جائے۔
قرآن کی صداقت کا بذات خود یہ کافی ثبوت ہے کہ معاندین اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی حقیقی دلیل نہیں پاتے۔ ان کے پاس اپنے معاندانہ جذبہ کی تسکین کی صورت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ بطور خود ایک جھوٹی کہانی بنائیں اور اس کو قرآن کی طرف منسوب کرکے قرآن کی سچائی کو ناکام طور پر داغدار کرنے کی کوشش کریں۔