خفیہ تصویر کشی
مقابل کے صفحہ پر دو تصویریں درج ہیں۔ یہ انگلینڈ کی ایک سڑک سے متعلق ہیں۔ ان کا عنوان ہے : " کیمرہ ٹریفک لائٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑتا ہے"۔اوپر والی تصویر میں ایک گاڑی عین اس نازک لمحہ (Fateful moment) میں پکڑ لی گئی جب کہ وہ لال بتی والے مقام پر ٹریفک قاعدہ کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ یہ گاڑی تیزی سے دوڑتی ہوئی ایک خاص چوراہے پر پہنچی۔ اس کے پہنچتے ہی وہاں کی لال بتی جل اٹھی۔ اب اس گاڑی کوو ہاں رک جانا چاہیے تھا۔ مگر لال بتی کے باوجود وہ رکے بغیر آگے بڑھ گئی۔
ڈرائیور کو معلوم نہ تھا کہ مخفی نظام کے تحت اس کا فوٹو لیا جا رہا ہے۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ اس نے لال بتی کو پار کیا ، کیمرہ نے فوراً اس کی تصویر لے لی ۔ یہ واقعہ لال بتی جلنے کے صرف ایک سیکنڈ بعد پیش آیا۔
نیچے کی دوسری تصویر بھی اسی مذکورہ سڑک سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں بھی ایک گاڑی کے ڈرائیور نے یہ کیا کہ لال بتی جل جانے کے باوجود وہ رکے بغیر آگے بڑھ گیا۔ دوبارہ کیمرہ نے فوراًاس کی تصویر لے لی۔ یہ دوسرا واقعہ لال بتی جلنے کے دو سکنڈ بعد پیش آیا۔ پہلی تصویر میں کیمرہ نے ایک سکنڈ کی خلاف ورزی کو پکڑا ، اور دوسری تصویر میں دو سکنڈر کی خلاف ورزی کو ۔
یہ تصویر لندن کے اخبار ٹائمس (28 جولائی 1988) سے لی گئی ہے۔ اس اخبار میں یہ تصویر ایک خبر کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ کار چلانے والے دس اشخاص اس جرم میں پکڑے گئے اور ان پر جرمانہ کیا گیا کہ انھوں نے سڑک کی لال بتی جل جانے کے باوجود اپنی گاڑی نہیں رو کی تھی۔
ان گاڑیوں کو پکڑنے کی یہ کارروائی دور سے کنٹرول کیے جانے والے کیمروں کی شہادت پرعمل میں آئی ۔ مذکورہ گاڑیاں سڑک پر تیزی سے گزرتی ہوئی دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھیں۔ مگر کیمرہ میں ان کی مکمل تصویر پوری طرح محفوظ تھی۔ ان تصویر وں کے ذریعہ انھیں بآسانی شناخت کر لیا گیا۔ کیوں کہ ان کیمروں نے عین جرم کے موقع پر ان کی تصویریں لے لی تھیں۔
ان کاروں کے ڈرائیور ناٹنگھم شائر پولیس کی ایک خاص اسکیم کے تحت پکڑے گئے۔ اس اسکیم کے مطابق شہر کے دو مصروف چوراہوں پر مخصوص کیمرے نصب کر دیے گئے تھے۔ یہ کیمرے کمپیوٹر سے جڑے ہوئے تھے اور ان کے زیرِ اثر کام کر رہے تھے۔
اس اسکیم کے تحت مذکورہ چوراہےپر سٹرک کی سطح کے نیچے خاص طرح کے حساس تار رکھ دیے گئے تھے۔ کوئی گاڑی جب اس تار کے اوپر سے گزرتی تو عین اسی وقت اس سے جڑے ہوئے کیمرے متحرک ہو جاتے۔ وہ سکنڈ سے بھی کم عرصہ میں فوراً مذکورہ گاڑی کا فوٹو لے لیتے۔
سڑک کے نیچے بچھے ہوئے ان تاروں کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ وہ مذکورہ کیمروں کو عین اس وقت متحرک کر دیتے تھے جب کہ سٹرک کی بتی لال ہو گئی ہو۔ اب یہ کیمرے خود کار نظام کے تحت گزرنے والی گاڑی کا فوٹو لے لیتے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے زاویہ سے گاڑی کا فوٹو لیتے تھے کہ اس کارجسٹریشن نمبر بھی پوری طرح فوٹو میں آجائے۔
ان کیمروں کی شہادت اتنی قطعی اور اتنی مسلّم تھی کہ ماخوذ افراد کے لیے ان کو غلط ثابت کرناممکن نہ تھا۔ چنانچہ سٹی مجسٹریٹ نے انھیں کی شہادت کی بنیاد پر میس الیسن مارٹن پر ۱۰۰ پونڈ کا جرمانہ کیا۔ اس خاتون نے ایک ہی دن میں دو جگہ اپنی گاڑی لال بتی پر دوڑا دی تھی۔ اسی طرح دوسرے کئی ڈرائیوروں پر مختلف جرمانے لگائے گئے۔ یہ تمام عدالتی سزائیں انھیں کمپیوٹر کیمروں کی لی ہوئی تصویروں کی بنیاد پر دی گئیں جنھوں نے دو سکنڈ اور ایک سکنڈ تک کی خلاف ورزی کونہایت صحت کے ساتھ ریکارڈ کر لیا تھا۔
اس طرح کے واقعات ، قرآن کے لفظوں میں، آیات اللہ (خدا کی نشانیاں) ہیں ۔ وہ "نشانی " کے روپ میں حقیقت کا اظہار ہیں۔ یہ واقعات دنیوی تجربے کے ذریعہ آخرت کے تجربے کا تعارف کراتے ہیں۔ وہ انسانی سطح پر پیش آنے والے معاملے کی صورت میں خدائی سطح پر پیش آنے والے معاملے کو بتا رہے ہیں۔
مذکورہ واقعہ انسان کی خفیہ ریکار ڈنگ کی مثال ہے۔ یہی خفیہ ریکارڈنگ زیادہ بڑے پیمانے پر خدا کی طرف سے ہو رہی ہے۔ انسان کی تمام گزرگاہوں پر خد اکے "تار "لگے ہیں اور اس کےہر راستے پر خدا کے" کیمرے " نصب ہیں۔ آدمی جیسے ہی مقررہ حد کو پار کرتا ہے ، خدا کا تصویر کشی کانظام فوراً متحرک ہو کر اس کو محفوظ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ آخرت کی عدالت میں اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہر آدمی کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ انسان کا بنایا ہوا نظام ہے جو ایک سکنڈ کے بقدر خلاف ورزی کو بھی فوراًپکڑ دیتا ہے پھر جب انسان کے بنائے ہوئے نظام کا یہ حال ہے تو خدا کے بنائے نظام کی گرفت کتنی زیادہ ہوگی۔ انسانی نظام محدود ہے اور خدائی نظام نامحدود۔ اسی سے دونوں نظاموں کے فرق کو سمجھا جاسکتا ہے۔
آدمی اگر اس سنگین حقیقت پر غور کرے تو اس کے چلتے ہوئے قدم رک جائیں۔ اس کی بولتی ہوئی زبان بند ہو جائے۔ اس کا قلم اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے۔
دنیا میں آدمی کسی سڑک پر صرف اس وقت تک اپنی گاڑی کو غلط چلاتا ہے جب تک اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس سڑک پر ٹریفک پولیس نے اس کی غلطی کو پکڑنے کا طاقت ور انتظام کر رکھا ہے ۔ پولیس کے اس انتظام کا علم ہوتے ہی ہر آدمی چوکنا ہو جاتا ہے اور اپنی گاڑی کوغلط دوڑانے سے رک جاتا ہے۔
اسی طرح آدمی کو اگر اس بات کا پورا یقین ہو جائے کہ اس کے چاروں طرف خدا کی "پولیس " لگی ہوئی ہے جو ہر لمحہ اس کی نگرانی کر رہی ہے اور اس کی ہر چھوٹی یا بڑی کارروائی کا ریکارڈ تیار کرنے میں مشغول ہے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہو جائے ۔ یہ احساس پیدا ہوتے ہی آدمی ایک محتاط انسان بن جائے گا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ذمہ دارانہ رویہ اختیارکرلے گا۔
انسان کا بگاڑ اس کا نام ہے کہ وہ اس سنگین حقیقت سے بے خبر ہو۔ اس کے مقابلے میں انسان کی اصلاح یہ ہے کہ اس کو اس سنگین حقیقت کا زندہ احساس ہو جائے۔