ایک سفر

ایک تعلیمی سیمینار کی دعوت پر بھوپال کا سفر ہوا۔  7 نومبر کو انڈین ایر لائنر کا ٹکٹ منگا یا گیا جس کا نمبر 3899903-0582  تھا۔ اس ٹکٹ کے ساتھ ایک عجیب قصہ پیش آیا۔ اس پر پوری اد اشدہ قیمت(1200 روپیہ) لکھی ہوئی تھی۔ اسی کے ساتھ اس پر دہلی - بھوپال -دہلی  درج تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھوپال کا ریٹرن ٹکٹ ہے۔ مگر کھول کر دیکھا تو اس میں قاعدہ کے مطابق دو سلپ موجود نہ تھی۔ اس میں صرف ایک سلپ تھی اور اس سلپ  پرفلائٹ کو پن نمبر  2     (2 (Flight coupon no.لکھا ہوا تھا۔ کلرک نے فلائٹ کو پن نمبر ا کو پھاڑ کر نکال لیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ ٹکٹ  بھو پال سے دہلی کی واپسی میں کارآمد ہے، مگر دہلی سے بھوپال جانے کے لیے   کار آمدنہیں۔

سرکاری دفتروں میں عام طور پر کارکردگی کا یہی حال  ہے ۔ ہندستان کے کسی سرکاری دفتر میں جب بھی کوئی کام کر ایا جائے تو اس کو اسی وقت پوری طرح چیک کر لینا بہت ضروری ہے۔ اس لیے   کہ کچھ معلوم نہیں کہ انھوں نے آپ کے کام میں کون سی قابل قیاس یا نا قابل قیاس غلطی کر دی ہو۔ میرا  واپسی کا رزرویشن کنفرم نہ تھا۔ ایر پورٹ پہنچ کر میں نے سوچا کہ یہاں اس کو کنفرم کر الوں۔ متعلقہ کھڑکی (Endorsement & Reservation) پر پہنچا تو وہاں لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ بعد کو آرہے ہیں وہ پیچھے کھڑے ہونے کے بجائے کھڑکی میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ویسے ہی جیسے بسوں اور ریلوں کا ٹکٹ لینے میں عام طور پر ہوتا ہے۔

ہوائی جہاز میں سفر کرنے والے لوگ عام طور پر پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ کیوں جاہلوں کا سا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان میں تعلیم کی شرح بمشکل 20 فی صد ہے ۔ اور جس سماج کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہو ، وہاں کی تعلیم یافتہ اقلیت بھی اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے جو سماج کی عام حالت ہو۔ کسی سماج کی شعوری اور تہذیبی حالت کو بدلنے کے لیے   ضروری ہے کہ اس کے تمام افراد کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ جزء  کی ذہنی حالت کو بلند کرنے کے لیے   کل کی ذہنی حالت کو بلند کرنا پڑے گا۔

11 نومبر 1988 کو انڈین ایر لائنز کی فلائٹ 433 کے ذریعہ بھوپال کے لیے   روانگی ہوئی۔ دہلی سے جہاز ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہوا ۔ زمین پر دیر تک کھڑا رہنے کے بعد جب جہاز رن وے پر دوڑا اور پھر "ٹیک آف "کر کے فضا میں اڑنے لگا تو اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے میری زندگی کا" جہاز" اب تک زمین پر لینڈ کیے     ہوئے تھا اور اب وہ زمین سے اوپر اٹھ کر آخرت کی طرف جارہا ہے تا کہ خدا کے میدان ِعدالت میں اتر جائے۔ کیسا عجیب ہو گا وہ لمحہ جب انسان "اپنی دنیا "سے نکل کر "خدا کی دنیا "میں پہنچے گا۔ بیشتر لوگوں پر یہ لمحہ آچکا، بقیہ لوگوں پر یہ لمحہ  بہت جلد آنے والا ہے۔

 ہماری پہلی منزل گوالیارتھی۔ گوالیار مدھیہ پردیش کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں کئی صنعتیں ہیں جس نے اس شہر کو خوشحال شہر بنا دیا ہے ۔ یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں ہیں۔ یہاں کے مشہورقدیم قلعہ میں چھ مندروں کے ساتھ ایک مسجد بھی موجود ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پچھلے دور میں ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کس قدر اتحاد اور رواداری موجود تھی ۔ غیر منقسم ہندستان میں 601  ریاستیں تھیں۔ ان میں پندرہ ریاستیں بڑی ریاستیں تھیں۔ ان بڑی ریاستوں میں سے ایک گوالیار بھی تھی۔

آزادی کے بعد جو کانسٹی ٹیوشن (دستور) بنا، اس میں ہندستانی ریاستوں کی دو تقسیم کی گئی تھی ۔ ایک وہ جو1947 سے پہلے براہ راست حکومت برطانیہ کے ماتحت تھیں ۔ دوسری وہ جہاں راجہ یا نواب حکومت کر رہے تھے ۔ ابتدائی دستور (1950) میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اول الذکر ریاستوں میں انتظامی سربراہ (Executive head) کی حیثیت سے گورنر مقرر کیے     جائیں گے ، اور ثانی الذکر ریاستوں میں سابق راجہ یا نواب ہی کو انتظامی سربراہ کی حیثیت حاصل رہے گی جن کو راج پر مکھ کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ ان سابق راجاؤں کے لیے   اور بھی کئی امتیازی حق تسلیم کیے گئے تھے۔ مثلاً صرف خاص(Privy perses) وغیرہ۔

مگر اس کے بعد کانسٹی ٹیوشن کی 26 ویں ترمیم (1971) مرکزی اسمبلی نے منظور کی جس کے مطابق سابق راجاؤں اور نوابوں کو دی ہوئی تمام رعایتیں ایک لخت ختم کر دی گئیں۔ یہ ایک نہایت عبرتناک مثال ہے ۔ ہندستان کے تمام مسلم لیڈر پچھلی نصف صدی سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے   قانونی تحفظات حاصل کریں ۔ انھوں نے اس واقعہ سے کوئی سبق نہیں لیا کہ جب خود دستور میں دیے    ہوئے کاغذی حقوق تنکے کی مانند ہوا میں اڑ گئے تو دوسرے کاغذی حقوق کی کیا حیثیت۔ ایسے کاغذی تحفظات کا ملنا بھی اتنا ہی بے قیمت ہے جتنا ان کا نہ ملنا۔ اس دنیا میں قو میں اپنے ذاتی استحقاق کے بل پر جیتی ہیں نہ کہ قانونی تحفظات کے بل پر۔

جہاز کے اندر انڈین ایرلائنز کا ماہنامہ سواگت (نومبر 1988) پڑھنے کے لیے   موجود تھا۔ اس کے ایک مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ہوائی جہاز (ایربس) زمین کی سطح سے 30 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا ہوا ایک منٹ میں 10میل کی مسافت طے کرتا ہے ۔ ایک عام ایربس میں 373 مسافروں کے لیے   سیٹ ہوتی ہے۔ جہاز میں اگرچہ کچھ لوگ سگریٹ پیتے ہیں۔ مگر اس کے اندر کی ہوا خر اب نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخصوص انجنیر نگ کے ذریعہ کیبن کی ہوا ہر 90 سکنڈ میں مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔

ہوائی جہاز کے سفر کا آغاز باقاعدہ طور پر 1927 میں ہوا۔ سب سے پہلے امریکہ کے فورڈ اور بوئنگ نے تجارتی سطح پر جہاز بنایا۔ ابتدائی جہازوں میں انفصال (Insulation) کا انتظام نہ ہونے کی بنا پر کیبن کے اندر بہت زیادہ شور رہتا تھا۔ مسافر وقتی طور پر بہرے ہو جاتے تھے ۔ تمام گفتگو اشاراتی زبان (Sign language) کے ذریعہ ہوتی تھی ۔ ابتدائی جہاز ایک گھنٹہ میں صرف 115  میل کا فاصلہ طے کرتے تھے۔ خبر ہے کہ جاپان اپنے یہاں ہوائی جہاز کی صنعت شروع کر رہا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو عجب نہیں کہ آئندہ ہوائی جہاز کی صنعت ایک نئے ترقی یافتہ مرحلہ میں داخل ہو جائے۔

11 نومبر1988 کی دو پہر کو میں بھو پال پہنچا تو بھو پال مجھے ایک جانا پہچانا شہر نظر آیا۔ بار بار کے سفر کے بعد اب بھوپال میرے لیے   کوئی اجنبی جگہ نہیں رہی۔ مجھے تقریباً 25 سال پہلے کی بات یاد آئی۔ میں ایک سفر پر تھا۔ رات کے وقت ٹرین ایک بڑے اسٹیشن پر رکی ۔ باہر دیکھا تو بورڈ پر "بھو پال" لکھا ہوا تھا۔ اس وقت تک میں نے بھو پال کو نہیں دیکھا تھا۔ میں سوچتا رہا کہ بھوپال کیسا ہوگا۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹرین آگے بڑھ گئی اور اسٹیشن نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

پڑھ کریا سن  کر میں نے "بھو پال " کا لفظ جان لیا تھا ، مگر ابھی میں نے بھوپال کے شہر کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا ۔ اس لیے   اُس وقت میں بھوپال کی کوئی تصویر اپنے ذہن میں نہ بناسکا۔ یہ واقعہ انسانی علم کی نوعیت کو بتا تا ہے ۔ آدمی کے پاس اگر "لفظ " ہو مگر اس کے پاس "معلومات " کاسرمایہ نہ ہو تو وہ کبھی حقیقت کو جاننے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

بھوپال میں میرا قیام جناب ذاکر صاحب کی رہائش گاہ پر تھا جو ایک مقامی تاجر ہیں۔ وہ خاموش کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی کا اصول دو لفظ میں یہ ہے  ––––––––  کم بولنازیادہ کرنا ۔

موجودہ زمانے میں کھلے چڑیا گھر بنائے جاتے ہیں جن کو اوپن زو  (Open zoo) کہا جاتا ہے۔ بھوپال میں اسی قسم کا ایک اوپن زو ہے اور اس کا سرکاری نام ون وہار ہے۔ آجکل ون وہار کے ڈائرکٹر سید مسعود الحسن صاحب ہیں۔ ان کے ساتھ ون وہار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

یہ ون و ہار گیارہ سو ایکر رقبہ میں قائم ہے۔ اس میں سفید شیر اور دوسرے قسم کے شیر ہیں اوربہت سے دوسرے جانور ہیں جوقدرتی ماحول میں رہتے ہیں۔ کئی شیر اور دوسرے جانور دیکھے ۔ اس دوران ہمارے ایک ساتھی نے سید مسعود الحسن صاحب سے کہا کہ اس کھلے چڑیا گھر کے مینجمنٹ میں آپ لوگوں کو کسی قسم کی زحمت تو پیش نہیں آتی۔ انھوں نے کہا کہ جانوروں کو مینج کرنا ہمارے لیے   کوئی مسئلہ نہیں، البتہ انسانوں کو مینج کرنا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس زو کو دیکھنے کے لیے   سالانہ تقریباً چارلاکھ آدمی آتے ہیں ۔ ان انسانوں کا حال یہ ہے کہ جانور چپ چاپ بیٹھا ہو تب بھی وہ اس کو پتھر مارتے ہیں۔ جانور کی زندگی کے لیے   انسان (Wildlife) کا لفظ بولتا ہے، لیکن اگر ان جانوروں سے پوچھئے ، تو وہ کہیں گے کہ جو نام تم ہم کو دےرہے ہو ، وہ تمہیں خود اپنے آپ کو دینا چاہیے  ۔

مدھیہ پردیش کے موجودہ چیف منسٹرار جن سنگھ بھی ایک جلسہ میں موجود تھے۔ یہاں کے مسلمانوں نے عام طور پر ان کی تعریف کی۔ ان کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بھوپال یونیورسٹی کا نام بدل کر برکت اللہ یونیورسٹی کر دیا ہے۔

مولانا برکت اللہ ولد شجاعت اللہ صاحب ، جولائی 1859ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ اور 27ستمبر 1927 کو سان فرانسسکو میں انتقال کیا۔ یکم دسمبر 1915ء کو کابل میں جلا وطن حکومت بنائی گئی۔ راجہ مہندر پرتاپ اس کے صدر تھے اور مولانا برکت اللہ بھو پالی کو اس کا وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔ مولانا برکت اللہ صاحب نے ایک ہفتہ وار اخباربھی جاری کیا تھا جس کا نام اسلامک فریٹرنٹی تھا۔ وہ بھوپال کے ممتاز"فریڈم فائٹر "تھے۔

یہاں کے ہندی روزنامہ افکار (3 ستمبر 1988) نے برکت اللہ بھوپالی کے سلسلے میں راجہ مہندر پرتاپ کا ایک خط16  اکتوبر1948 شائع کیا ہے ۔ اس میں راجہ مہندر پرتاپ لکھتے ہیں : مولانا برکت اللہ نے نہایت محبت و صداقت سے اپنے فرائض ادا کیے    ۔ چونکہ وہ عربی اور فارسی کے عالم تھے اور حضرت عالی سردار نصر اللہ خاں صاحب صدر اعظم افغانستان کو پہلے انگلینڈ میں مل چکے تھے ، ہم کو افغان حکومت سے رفاقت پیدا کرنے میں بڑی آسانی ہوئی۔ بعد کو مولانا صاحب لال روس کے بھی دوست بنے اور ہندستان کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکے۔

 "افکار" صحافت کی دنیا میں ایک نیا تجربہ ہے۔ یہ ایک ایسا اخبار ہے جس کی زبان اردو ہوتی ہے۔ مگر اس کا رسم الخط دیو ناگری ہوتا ہے۔ مثلاً  افکار (12 نومبر) نے میرا انٹرویو چھاپا ۔ اس کی سرخی کے الفاظ حسب ذیل تھے جو ہندی رسم الخط میں لکھے ہوئے تھے :

مکمل اعراض ہی تمام مسائل کا حل

اس کے قارئین میں تقریباً  30فی صد ہندو ہیں۔ میں نے افکار کے اڈیٹر صاحب سے اس کی وجہ پوچھی ۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے ایسے ہندو ہیں جو اردو زبان کو پسند کرتے ہیں مگر فارسی رسم خط نہ جاننے کی وجہ سے اردو کو پڑھ نہیں سکتے۔ افکار ان کی اس مشکل کو حل کر دیتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ افکار میں ہندو کو دوسرا نقطہ ٔنظر بھی پڑھنے کو مل جاتا ہے ۔ اس طرح اس کا شک دور ہو جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ دوسری ریاستوں میں بھی اس قسم کے اخبارجاری کرنا چاہیے  ۔ اس سے قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

۱۱ نومبر کی شام کو روزنامہ افکار (ہندی )نے انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں میرے نقطۂ نظر کو سمجھنے  میں کچھ لوگوں کو اس لیے   مشکل پیش آتی ہے کہ دوسرے لوگ مسلم اور غیر مسلم کے تعلق کو حریف اور رقیب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس میں یہ کہتا ہوں کہ دونوں کے درمیان جو تعلق ہے ، وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اگر آپ حریفانہ نفسیات سے اٹھ کر داعیانہ نفسیات کے ساتھ دیکھ سکیں تو آپ ہمارے نقطہ ٔنظر سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوں گے ۔

11 نومبر کی شام کو سیرت کے جلسہ میں خطاب تھا۔ اس کو جناب خلیل اللہ خاں ایڈوکیٹ اور انکے ساتھیوں نے منظم کیا تھا۔ اس میں میں نے ایک حدیث کی تشریح کی جس کے الفاظ یہ ہیں: ‌إِنَّ ‌الْفِتْنَةَ ‌نَائِمَةٌ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ أَيْقَظَهَا .  فتنہ سویا ہوا ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے جو اس کو جگائے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ" فتنہ" خود نظام ِتخلیق کے تحت اس دنیا میں موجود ہے ، اور وہ لازماً موجود رہے گا۔ ہمارے کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ فتنہ کی موجودگی پر شور و غو غا کریں ، بلکہ اصل کام یہ ہے کہ سوئے ہوئے فتنہ کو سویا ہوارہنے دیں ، ایسا نہ کریں کہ اپنی نادانی کے ذریعہ اس کو جگا دیں۔

12  نومبر کی دوپہر کو تعلیمی سمینار میں شرکت کی۔ اس سمینار کے مہمان خصوصی جناب سید حامد صاحب (سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)  تھے۔ سید حامد صاحب نے اپنے علم اور تجربہ کی روشنی میں مسلمانوں کے تعلیمی مسائل کا نہایت عمدہ تجزیہ کیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو خود اپنی محنت سے تعلیم میں آگے بڑھنا ہو گا۔ اگر وہ دوسروں کی طرف دیکھتے رہے تو ان کی تعلیمی پسماندگی میں مزید اضافے کے سوا کچھ اور ہونے والا نہیں۔

میں نے اپنی تقریر میں تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم بذات خود مطلوب ہے ۔ حتی کہ اگر" مسلم اسکول"  موجود نہ ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے   کہ وہ" غیر مسلم اسکول " میں داخلہ لیں۔ قوم کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو ، اور تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔

اس سلسلے میں میں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کا اصل مسئلہ اغیار کی مفروضہ سازش نہیں ہے۔ بلکہ سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کا تعلیمی پچھڑا پن ہے۔ اس کی وجہ سے مسلم رہنماؤں اور مسلم عوام کے درمیان ایک ذہنی بُعد (Intellectual gap)  پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً مسلم یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو امتیازی لیاقت کے راستہ پر آگے بڑھائے، مگر مسلم طلبہ  یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں رعایتی داخلے اور رعایتی سروسیں  دی جائیں۔ اس بنا پر دونوں میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اور کوئی حقیقی تعمیری کام انجام نہیں پاتا۔ جناب سلیم شمسی صاحب اس سمینار کے داعی تھے۔

 13 نومبر کو منشی حسین خاں ٹکنیکل اسکول کے جلسہ میں شرکت کی۔ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر مسٹر ارجن سنگھ اس کے مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر میری ایک تقریر ہوئی ۔ اس میں میں نے کہا کہ مسلمان موجودہ زمانے میں ٹکنا لوجی میں پیچھے ہو گئے۔ حالانکہ یہ عین اسلام کا تقاضا تھا کہ وہ اس میدان میں آگے رہتے ۔

 میں نے کہا کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ بقدرِ استطاعت طاقت فراہم کرو(وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّة) (8:60)قدیم ذہن کے تحت مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ اس کا مطلب فوج اور تلوار کی طاقت جمع کرنا ہے۔ چنانچہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے وہ ہتھیاروں کے ذہن سے سوچتے رہے ، مگر ساری دنیا میں انھیں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے کی اصل طاقت علم ہے ، اور علم میں بھی سائنس اور ٹکنالوجی  خصوصی طور پر طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مختلف مثالوں کے ذریعہ اس بات کو واضح کیا گیا۔

13 نومبر کی دو پہر کو قدسیہ مسجد میں قارئین الر سالہ کا اجتماع ہوا۔ اس موقع پر میں نے دعوت کی اہمیت پر زور دیا۔ اس اجتماع میں کچھ ہندو بھائی بھی شریک تھے ۔ وہ الرسالہ ہر ماہ پڑھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھائی مسٹر راج تیواری نے تقریر کے بعد اپنا تا ثربتاتے ہوئے کہا : دعوت کے بنا اسلام ایک فیوز بلب کی طرح ہے۔ بلب کا فیوز اڑ جائے تو ہر طرف اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں دعوت نہ رہے تو گویا کچھ بھی نہ رہا۔ مسٹر پی این گپتا ایڈوکیٹ نے بھی اسی قسم کی بات کہی ۔

13 نومبر کو جناب محمد خان صاحب (سابق ڈسٹرکٹ جج ) کی رہائش گاہ پر ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں بھوپال کے وکلاء اور جج صاحبان شریک تھے ۔ اس موقع پر میں نے اسلامی عبادت کی حقیقت بیان کی ۔ اس سلسلے میں نماز کے تین اعمال  ––––––– اللہ اکبر، الحمد للہ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی وضاحت کی گئی ۔ بھوپال میں جتنے خطابات ہوئے ، ان کا ٹیپ مقامی لوگوں کے پاس موجود ہے۔

اس سفر میں ایک نئی بات یہ سامنے آئی کہ پچھلے ایک سال کے عرصہ میں ڈاکٹر حمید اللہ ندوی اور ان کے ساتھیوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خوش گوار بنانے کا کام وسیع  پیمانہ پر کیا ہے۔ اس کے بعد دونوں فرقے ایک دوسرے سے قریب آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف روک قائم ہوا ہے بلکہ دعوت کے کام کے لیے   بھی نئے امکانات کھلے ہیں۔ اس انداز کی کوششیں ملک کے ہر شہر اور ہر علاقے میں کی جانی چاہئیں۔ مسٹر پریم نرائن گپتا ایڈوکیٹ بھو پال کی انسانی برادری کے صدر ہیں ۔

 ایک مشترک نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ہمارا ملک دو مرحلوں سے گزرچکا ہےاور اب اسے تیسرے مرحلہ میں داخل ہونا ہے۔

پہلا مرحلہ1947 سے پہلے کا ہے۔ اس وقت ہندستان پر انگریزوں کی حکومت تھی ۔ ہمارے لیڈروں نے کہا کہ ہماری تمام مصیبتوں کی جڑ بدیشی حکومت ہے۔ اگر بدیشی راج ختم ہو جائے اور ملک والوں کی اپنی حکومت قائم ہو جائے تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی ، ہر آنکھ کے آنسو پچھ جائیں گے۔1947میں یہ نشانہ پورا ہوگیا۔ مگر آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ہمارا کوئی مسئلہ حل نہ ہوا۔

دوسرا مرحلہ وہ ہے جو آزادی کے بعد شروع ہوا۔ اس کو ایک لفظ میں ، قانون کے ذریعہ اصلاح ،کہا جاسکتا ہے ۔ ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک بے شمار قانون ہر چیز کے بارے میں بنائے گئے۔ مگر قانون کی بھرمار کے باوجود ہمارا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوا۔ بلکہ "غلام ہندستان " میں جتنے مسئلے تھے ، اب "آزاد ہندستان"میں اس سے زیادہ مسئلے پائے جاتے ہیں۔

 اب آخری بات یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم مذہب کا تجربہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب ہی واحد چیز ہےجو زندگی کے معاملات کو درست کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ مذہب کا مطلب لاؤڈ اسپیکروں کا شور اور جلوسوں کے مظاہرے نہیں ہیں ۔ مذہب کی اصل حقیقت جَوابدہی (Accountability) ہے۔ یعنی یہ کہ انسان کو اپنے تمام کاموں کا خدا کے سامنے جواب دینا ہے ۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ لوگوں میں اس احساس کوجگایا جائے۔

ایک نشست ہوئی جس میں کچھ مسلمان تھے اور زیادہ تر ہندو بھائی شریک تھے۔ میں نے کہا کہ برصغیر( ہندستان ، پاکستان، بنگلہ دیش)  کا اگر آپ سفر کریں تو آپ پائیں گے کہ ہر آدمی بس ایک ہی سوچ میں گرفتارہے ، اور وہ ہند ومسلم سوچ ہے۔  اس علاقہ میں تقریباً200ملین انسان آباد ہیں۔مگر ہر ایک بس ایک ہی اصطلاح میں سوچنا جانتا ہے۔ اور وہ ہندو مسلم کی اصطلاح ہے۔

میں نے کہا کہ یہ جھوٹی سوچ ہے۔ اصل سوچ یہ ہے خدا اور انسان کے اعتبار سے سوچا جائے۔ زندگی اور موت ، دنیا اور آخرت کی اصطلاحوں میں معاملہ کو سمجھا جائے ۔ یہاں ہندو اور مسلمان دونوں قومی جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب کے سب مصنوعی جھگڑے ہیں۔ اصل چیز جو سامنے آنے والی ہے وہ یہ کہ انسان کو مرنا ہے۔ اور اس کے بعد اس کو اپنے رب کے سامنے حساب کتاب کے لیے   حاضر ہونا ہے۔ اس کے بعد یا تو ابدی جنت ہے یا ابدی جہنم ۔

میں نے کہا کہ اگر ایک بلڈ نگ میں آگ لگ جائے تو ہر طرف شعلے بھڑکنے لگیں گے ، اس وقت کوئی شخص ہند و مسلم اصطلاحوں میں نہیں سوچے گا۔ اس وقت ہر آدمی زندگی اور موت کے ذہن سے سوچے گا۔ضرورت ہے کہ آگ لگنے سے پہلے یہی سوچ پیدا ہو جائے۔

 حضرت پیر سعید میاں صاحب مجددی بھوپال کے مشہور بزرگ ہیں۔ ان کی ہر بات نصیحت اوروعظ سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ گفتگو کے دوران کامیاب زندگی کا گر  دو لفظوں میں اس طرح بیان فرمایا –––––  ذوق کی بلندی ، زندگی کی سادگی۔

ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے لکھا ہے کہ ڈیڑھ سو سال سے مسلمانوں میں کوئی صحیح رہنما پیدا نہیں ہوا۔ اس درمیان میں جو لوگ اٹھے وہ حالات کے رد ّعمل کی پیداوار تھے نہ کہ مثبت فکر کی پیداوار ۔ میں نے کہا کہ میں نے تو صرف ڈیڑھ سو سال کی بات کہی ہے مگر  آپ کے محبوب شاعر اقبال تو اس مدت کو اس سے بھی زیادہ وسیع کر رہے ۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے :

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند۔

میں نے کہا کہ اگر آپ میری بات پر تنقید کرتے ہیں تو اقبال کی بات پر دگنا طاقت کے ساتھ تنقید کیجئے۔ اس کو سن کر وہ خاموش ہو گئے۔

شری برج کشور سانگھی ایڈوکیٹ سے دو بار ملاقات ہوئی ۔ وہ نہایت سلجھے ہوئے ذہن کے آدمی ہیں۔ وہ اگرچہ ہندو مذہب میں یقین رکھتے ہیں ۔ مگر اتنی ہی قوت کے ساتھ وہ مذہبی رواداری کے بھی حامی ہیں اور ہندومسلم تعلقات کو خوش گوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو مسلم لیڈر وزیروں اور حکمرانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں ، انھیں اس قسم کے سنجیدہ ہندوؤں سے ربط بڑھانا چاہیے   ۔ یہ بلاشبہ ملکی حالات کو درست کرنے کے لیے   اوّل الذکر دوڑ دھوپ سے زیادہ کار آمد ہے۔

قاضی و جدی الحسینی صاحب نے بتایا کہ ایک بار ان کی ملاقات علامہ اقبال سے ہوئی ہے ۔ یہ ملاقات لاہور میں موصوف کی وفات سے تقریبا ًایک سال پہلے ہوئی۔ اس وقت علّامہ اقبال مرض الموت میں مبتلا تھے ۔ میں نے قاضی صاحب سے کہا کہ علامہ اقبال کی کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے خود براہ راست سنی ہو۔

قاضی صاحب نے کہا کہ مذکورہ ملاقات میں موت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے ایک لطیفہ بتایا تھا جو اب تک مجھے یاد ہے۔ انھوں نے کہا کہ شیخ سعدی نے ایک کہانی لکھی ہے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں ایک پہلوان رہتا تھا۔ پہلوان کی عمر زیادہ ہونے لگی تو بادشاہ نے اس سے کہا کہ کسی جوان آدمی کو اپنےکر تب سکھا کر پہلو ان بنا دو تا کہ تمہارے بعد دربار کی یہ جگہ خالی نہ رہے۔ پہلوان نے ایک نوجوان کو منتخب کر کے اس کو سکھانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ایک تربیت یافتہ پہلوان بن گیا۔

 اس کے بعد وہ شخص اپنے استاد سے باغی ہو گیا۔ وہ شہر میں لوگوں کے درمیان اس طرح کی باتیں کرنے لگا گویا کہ وہ اپنے استاد سے زیادہ بڑا پہلوان ہے ۔ یہ بات بادشاہ کو اچھی نہیں لگی۔ درباریوں سے گفتگو کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ استاد اورشاگرد دونوں کا مقابلہ کر ایا جائے۔

دونوں اکھاڑے کے اندر جمع ہوئے شاگرد نے کچھ دیر تک زور آزمائی کی اس کے بعد اچانک استاد نے اس کو زمین پر پٹک دیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے استاد سے پوچھا کہ تم تو اپنا سارا کر تب اپنے شاگرد کو سکھا چکے تھے۔ پھر تم کس طرح اس کو ہرانے میں کامیاب ہوئے۔ استاد نے جواب دیا :پہلوان ہمیشہ ایک داؤ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔

علامہ اقبال نے اس کہانی کو بیان کرنے کے بعد کہا –––––– اسی طرح پہلوانِ فطرت نے ایک داؤ اپنے پاس محفوظ رکھا ہے ، اس کا نام موت ہے۔

سید مسعود الحسن صاحب (عمر 45سال )بھوپال زو کے ڈائرکٹر ہیں۔ وہ برسوں تک جنگلوں میں رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جنگل میں کئی بار ایسا ہوا کہ چلتے ہوئے شیر سامنے آگیا۔ مگر شیر(دفاع کے سوا ) کبھی انسان پر حملہ نہیں کرتا۔ چنانچہ مجھ کو دیکھتے ہی شیر اپنے آپ راستہ بدل کر دوسری طرف چلا گیا ۔

 انھوں نے بتایا کہ شیر جب آدمی کو دیکھتا ہے تو فوراً واپس ہو کر تیزی سے بھاگ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیر انسان سے ڈرتا ہے ۔ وہ "چوپایہ"  پر حملہ کرتا ہے ۔ مگر" دو پایہ "سے خود ڈرتا ہے۔ شیر انسان خورصرف اس وقت بنتا ہے جب کہ انسان خود کوئی حماقت کر کے شیر کو یہ حقیقت بتا دے کہ وہ شیر سےکمزور ہے۔

یہی معاملہ انسانی دنیا کا ہے ۔ اکثر ایسا ہو تا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی طاقت کا ضرورت سے زیادہ اندازہ کر لیتا ہے۔ اس لیے   ایک شخص دوسرے شخص سے خائف رہتا ہے۔ خوف  کی یہ نفسیات جارحیت کے خلاف ایک مستقل چیک ہے۔ مگر  جب کوئی آدمی غلط اور ادھورااقدام کر کے اپنی کمزوری سے فریق ثانی کو باخبر کر دے۔ تو ایسے آدمی کا حال اپنے سماج میں وہی ہو جاتا ہے جو مردم خور شیر کےپڑوس میں انسان کا۔

سید مسعود الحسن صاحب جو وائلڈ لائف کے عالم ہیں ، انھوں نے بتایا کہ شیر، دوسرے اکثر جانوروں کی طرح ایک علاقہ پسند (Territorial) جانور ہے۔ شیر ہمیشہ ایک علاقے کو اپنا علاقہ بنا لیتا ہے۔ اس کے نشان کے طور پر وہ ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی "سرحدوں" پر گھوم کر پیشاب کے راستے سے ایک خاص طرح کا کیمیکل چھڑک دیتا ہے۔ اس کے اندر ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے جس کو دوسرے شیر پہچان لیتے ہیں۔ چنا نچہ دوسرا کوئی شیر جب وہاں آتا ہے تو وہ اس بو کو سونگھ کر جان لیتا ہے کہ یہ ایک اور شیر کا علاقہ ہے ، وہ فوراً  و ہاں سے واپس چلا جاتا ہے۔

شیر علاقائی تقسیم کے ذریعے اس سے بچتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگیں۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا ہے۔ انسان کے لیے   قدرت کا بتایا ہو ا طریقہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنی حد پر رہے ۔ نہ ایک شخص اپنی حد سے باہر نکلے اور نہ دوسرا شخص اس کی حد کے اندر داخل ہو۔

سید مسعود الحسن صاحب نے بتایا کہ اس سے پہلے وہ شہڈ ول نیشنل پارک میں تھے ۔ وہاں ایک جاپانی فوٹو گرافر آیا اور ایک ہوٹل میں دو مہینے تک ٹھہرا رہا۔ اس کا روزانہ کا خرچ تقریباً 500 روپیہ تھا۔ وہ ہاتھی پر چڑھ کر پارک میں گھومتا تھا اور شیروں کے فو ٹولیتا تھا۔ اس طرح اس نے تقریباً دس ہزار فوٹو حاصل کیے     اور پھر واپس چلا گیا۔

 فوٹو گرافر سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ ہمارے یہاں ایک ما ہا نہ میں میگزین نکلتا ہے۔ یہ ہر مہینہ کسی خاص جانور کے فوٹو شائع کرتا ہے۔ آئندہ ہمارامیگزین  شیر کے فوٹو شائع کرنے والا ہے۔میں نے جو فوٹو لیے ہیں ، ان میں سے ایک سو فو ٹو چنے جائیں گے اور ان کو میگزین میں شائع کیا جائے گا۔ اس میگزین کی اشاعت ایک لاکھ ہے ، اور ہر ایک شمارہ کی قیمت ڈیڑھ سو روپیہ ہوتی ہے۔

فوٹو گر افر نے واپسی کے بعد اپنے میگزین کا وہ شمارہ سید مسعود الحسن صاحب کے پاس بھیجا جس  میں اس کے فوٹو شائع کیے     گئے تھے۔ اس کو میں نے دیکھا۔ آرٹ پیپر پر شیروں کی نہایت عمدہ تصویریں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ تصویریں شیر کی زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ میگزین گویا شیر کی بابت ایک فلم ہے  –––––  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کی صحافت کا معیار کتنا بلند ہے۔

 سید مسعود الحسن صاحب سے میں نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر سالم علی کی سوانح حیات پڑھی ہے جس کا نام ہے :

The Fall of Sparrow

اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چڑیوں سے کتنی زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ایک بار ڈ اکٹر سالم علی ہمارے یہاں آئے۔ ہم ان کو جنگل میں لے گئے۔ وہ دور بین لگائے ہوئے چڑیوں کو دیکھاکرتے تھے ۔ ایک بار انھوں نے ایک چڑیا کو دیکھنا شروع کیا جس کو بش چاٹ Bush chat)) کہا جاتا ہے۔ اسی وقت جھاڑی میں ایک شیر دکھائی پڑا۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھئے وہ شیر ہے۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور برابر چڑیا کو دیکھتے رہے۔ جب میں نے کئی بار کہا تو وہ بولے –––––––   اس بش چاٹ کو تو دیکھو :

Look at this bush chat

اسی کا نام ذہنی ارتکاز ہے، اور اسی ذہنی ارتکاز میں تمام بڑی بڑی ترقیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔

 بہت سے ہندو بھائی رہائش گاہ پر اور اجتماعات میں آئے ۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو یا تو الرسالہ (انگریزی) پڑھتے ہیں یا اردو الرسالہ کسی سے پڑھوا کر سنتے ہیں ۔ انھوں نے عام طور پر یہ بات کہی کہ الرسالہ کو ہندی زبان میں نکالا جانا چاہیے  ۔ ایک ہندو نوجوان نے کہا : میرے جیسے کتنے لوگ ہیں جو ابھی تک اندھیرے میں ہیں۔ ان کو ہندی الرسالہ سے روشنی ملے گی۔ مسٹر راج تیواری کو الرسالہ سے اتنی دلچسپی ہے کہ اس کو براہ راست پڑھنے کے لیے   انھوں نے اردو سیکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ انگریزی الرسالہ پڑھ رہے تھے۔

ایک نوجوان نے "آٹو گراف "کے لیے   کہا۔ میں نے اپنے دستخط کے ساتھ ان کو یہ جملہ لکھ کر دے دیا: زندگی آسانیوں کا چمنستان نہیں، زندگی مشکلوں کا خارزار ہے۔

بھوپال سے دہلی کے لیے   انڈین ائیر لا ئنز کی فلائٹ434 سے واپسی ہوئی۔ ائیر پورٹ پر کئی لوگ آگئے تھے۔ یہاں ایک چھوٹا سا اجتماع ہو گیا۔ جس میں اسلامی دعوت سے متعلق کچھ باتیں عرض کی گئیں۔

ہوائی جہاز کی طرف بڑھا تو گیٹ پر ایک واقعہ پیش آیا۔ انڈین ایئر لائنز کے عملہ کی ایک خاتون گیٹ پر اپنی ڈیوٹی پر کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا : مولوی صاحب ، میری بچی کے لیے   دعا کیجئے ، وہ بہت بیمار ہے ۔ یہ لفظ وہ بار بار دہراتی رہی ۔ اس نے اپنا نام روزی بتا یا۔ میرا مولو یا نہ حلیہ دیکھ کر اس نے سمجھا کہ یہ کوئی مذہبی  آدمی ہے۔ اس بنا پر اس نے دعا کے لیے کہا۔

جدید انسان یہ کہتا ہے کہ مولوی آدمی سیاست نہیں جانتا۔ مگر عین اسی وقت اس کا یقین ہے کہ "مولوی آدمی" روحانیت جانتا ہے۔ ایسی حالت میں داعی کو اس دروازے سے داخل ہونا چاہیے   جو اس کے لیے   کھلا ہوا ہے ، نہ کہ وہ اس دروازہ سے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے جو اس کے لیے   بند ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom