دو کردار
غزوہ ٔبدر کے بعد مدینہ کے یہودی سردارحیی بن اخطب اور کعب بن الا شرف مکہ گئے۔ انھوں نے مکہ کے مشرکین سے ملاقاتیں کیں اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسایا۔
اس سلسلے میں جو مختلف روایتیں آئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اہل مکہ نے ان سے کہا کہ تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو ۔ تم ہمارے بارے میں اور محمد کے بارے میں اپنی رائے بتاؤ۔ انھوں نے پوچھا کہ تم کیا ہو اور محمد کیا ہیں ۔ مشرکین نے کہا کہ ہم صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ ہم اونٹ ذبح کرکے کھلاتے ہیں۔ ہم لوگوں کو دودھ پلاتے ہیں۔ ہم مصیبت زدوں کی مدد کرتے ہیں۔ ہم حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں ۔ اور محمد ایک کمزور شخص ہیں جن کا کوئی وارث نہیں۔ انھوں نے ہمارے رشتوں کو کاٹا۔ حاجیوں پر ڈاکہ ڈالنے والے بنو غفارکے لوگ ان کے ساتھی ہیں۔ پھر بتاؤ کہ ہم اچھے ہیں یاوہ۔ یہودی سرداروں نے کہا کہ تم زیادہ اچھے ہو اور تمہارا طریقہ زیادہ صحیح ہے ( تفسیر ابن کثیر الجزء الاول ، صفحہ 513)
اس پر قرآن میں یہ آیت اتری کہ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب سے ایک حصہ ملا تھا وہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ صحیح راستہ پر ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ اور جس پر اللہ لعنت کرے تم اس کا کوئی مددگار نہ پاؤ گے ( النساء51-52:)
اس واقعے میں ایک کردار مشرکین کا ہے اور دوسرا کر دار یہود کا۔ مشرکین نے یہ کیا کہ اپنے معاملے کو اچھا بنا کر دکھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے کو بگاڑ کر پیش کیا۔ اس کے بعد یہود کا کر دار یہ ہے کہ انھوں نے رسول اللہ کی دشمنی میں اس بیان کو جوں کا توں مان لیا، اور اس کی روشنی میں اپنا فیصلہ دے دیا۔
یہ دونوں قسم کے کردار آج بھی موجود ہیں "مشرکین " والا کردار ادا کرنے والے بھی، اور"یہود" والا کر دارا دا کرنے والے بھی۔ ایسے لوگ اللہ کی نظر میں لعنت زدہ ہیں ، خواہ بطور خودوہ اپنے آپ کو کتنا ہی زیادہ اچھا سمجھ رہے ہوں۔