ایک آیت

قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ ۔ پھر اگر ان میں کا ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو اس گروہ سے لڑوجو زیادتی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے در میان عدل کے ساتھ صلح کراؤ ، اور انصاف کرو ۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسندکرتا ہے (الحجرات  9:)

اس آیت میں اس جنگ کا ذکر نہیں ہے جو مسلم عوام اورمسلم حکمران کے درمیان ہو ۔ ایسی جنگ اسلام میں حرام ہے۔ ایک مسلم حکومت جب وہ قائم ہو جائے ، تو اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں۔ خواہ مسلم حکومت میں بگاڑ آگیا ہو ، اور خواہ مسلم عوام اس کے خلاف "اصلاح سیاست " کا نعرہ لے کر کیوں نہ اٹھے ہوں۔

اس آیت کا خطاب اسلامی حکومت کے ذمہ داروں سے ہے ۔ اور اس میں جس باہمی جنگ (اقتتال) کا ذکر ہے ، وہ عام مسلمانوں میں سے دو گروہوں کا آپس میں لڑ جانا ہےاس آیت کا مسلم حکومت اور عوام کے درمیان جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔

قرآن کی اس آیت میں ان لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو کسی مسلم معاشرہ میں حاکمانہ اختیار رکھتے ہوں۔ ان کے ما تحت  لوگوں میں سے دو فرد یا دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس وقت حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس  باہمی  ٹکراؤکو ختم کریں ۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ دونوں فریقوں کے درمیان باہمی رضا مندی سے صلح کرا دیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی فریق اپنے بھائی کے خلاف زیادتی کرے تو اس کو طاقت کے ذریعہ ایسا کرنے سے روک دیا جائے۔

 اگر مسلم حکومت قائم ہو تو اس آیت کا خطاب مسلم حکمرانوں سے ہوگا۔ اور جہاں مسلم حکومت نہ ہو وہاں اس کے مخاطب علماء اور رہنما ہوں گے۔ اپنی استطاعت کے مطابق ان کا فرض ہوگا کہ مسلمانوں کے باہمی جھگڑے میں دخل دیں اور ہر ممکن دباؤ کو استعمال کر کے معاملے کو منصفانہ انداز میں ختم کرانے کی کوشش کریں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom