سوال وجواب
سوال
میں آپ کے قول وفکر سے بہت متاثر رہا ہوں۔ یہ اِس بنا پر کہ میں نے آپ کی تحریرکی ہوئی باتیں آپ کے ماہنامہ الرسالہ میں پڑھی ہیں۔ میں نے آپ کی بتائی ہوئی اچھی باتیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میں نے پایا ہے کہ میرے اطراف کے لوگوں میں کچھ لوگ آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ جب میں نے ان سے وجہ دریافت کی تو وہ مجھے کوئی قابلِ قبول وجہ نہیں بتاسکے۔ صرف سنی سنائی باتوں کا ایسے لوگ ذکر کرتے ہیں۔ میں ان سے کہتا رہا ہوں کہ وہ خود اپنا کوئی ذاتی تجربہ یا مشاہدہ بتائیں تو وہ بتانے سے قاصر رہے ہیں۔ اس طرح میں ان کو نظر انداز کرکے خاموشی سے تعمیری سوچ اور کام میں لگا رہا ہوں۔
میرا ایک مشاہدہ آپ کے بارے میں ایسا ہوا ہے جو میری سمجھ سے غیر مناسب ہے اور آپ جیسی شخصیت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا۔کل کے اخبار (The Hindu, Aug. 7, 2009) میں آپ آڈوانی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ’’میرا وطن میری زندگی‘‘ کے Release Function میں شامل ہیں۔ ایک طرح سے یہ اُس شخصیت کا endorsement ہے جس کی لکھی ہوئی یہ کتاب ہے۔ اس مصنف کی جو قدریں (values) ہیں، وہ اس کے قول اور اُس سے زیادہ اس کے عمل اور کردار سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کے بارے میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
میرا تجربہ ہے اور دانش مندوں کی کہاوت ہے کہ خود غرض اور ظالم کی دوستی فائدہ مند نہیں ہوتی، خواہ وہ ظالم آپ پر مہربان ہو۔ ایسے لوگوں کے دعوت نامہ کو قبول کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرنا چاہئے۔ اگر کسی وجہ سے ایسی دعوت قبول کرنا بھی پڑے تو ایسے موقع پر اپنی بات پوری وضاحت اور مضبوطی سے کہنا چاہیے۔ تاکہ negative values کا endorsement نہ ہونے پائے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اِس معاملہ میں آپ وضاحت کریں اور میری غلط فہمی دور کریں۔ (ایم اے صدیقی، کان پور)
جواب
اصل یہ ہے کہ کسی واقعہ کو دیکھنے کے دو زاویے(angles) ہوتے ہیں۔ ایک، مثبت زاویہ اور دوسرا منفی زاویہ۔ ایک واقعہ مثبت زاویہ سے دیکھنے میں صحیح واقعہ نظر آئے گا۔ اسی واقعہ کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو وہ منفی واقعہ بن جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صلح حدیبیہ پیش آیا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمر فاروق نے منفی زاویہ سے دیکھا تو ان کو وہ پسپائی کا ایک واقعہ نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ: لم نعطی الدنیۃ فی دیننا(الأوسط فی السنن، رقم الحدیث: 244)۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اس کو مثبت زاویہ سے دیکھا اور قرآن میں اعلان کیا گیا کہ یہ فتح مبین ہے (الفتح: 1)
آپ کی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ نے مذکورہ اجتماع میں میری شرکت کو دوستی کے زاویہ سے دیکھا اور اس کو صاحب کتاب کاendorsement سمجھ لیا۔ آپ کے لیے صحیح یہ تھا کہ آپ اس کو دعوت کے زاویہ سے دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ مذکورہ اجتماع میں میری شرکت ایک صحیح اور باعثِ ثواب معاملہ تھا۔ جو شخص بھی،ماہ نامہ الرسالہ اور اس کا خبر نامہ باقاعدگی کے ساتھ پڑھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ مذکورہ واقعہ کوئی استثنائی واقعہ نہ تھا، بلکہ وہ بہت سے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ تھا۔
میں اور میرے ساتھی دعوت الی اللہ کا مشن چلارہے ہیں۔ یہ مشن ایک مبنی بر لٹریچر مشن ہے۔ ہم مسلسل یہ کررہے ہیں کہ انڈیا کے اندر اور انڈیا کے باہر ہونے والے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں۔ وہاں ہم لوگوں کے درمیان اسلامی لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم ہر مذہب اور ہر گروہ اور ہر پارٹی کے اجتماعات میں جاتے ہیں۔ اگر ہم آپ کے بیان کردہ زاویے سے چیزوں کو دیکھیں تو ہم دعوت کے مواقع (opportunities) کو استعمال نہ کرسکیں گے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں گناہ گار ثابت ہوں گے۔
ہمارایہ طریقہ پیغمبر کی سنت کے عین مطابق ہے۔ حضرت یوسف نے قدیم مصر میں وہاں کے بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن میں ایک ذمّہ دارانہ عہدہ قبول کیا، حالاں کہ یہ بادشاہ ایک مشرک بادشاہ تھا۔ حضرت یوسف اگر اس معاملہ کو (شرک) کے زاویے سے دیکھتے تو وہ بادشاہ کے ایڈمنسٹریشن میں شرکت نہ کرتے۔ مگر آپ نے اس کو اپنے دعوتی مشن کی حیثیت سے دیکھا اور قبول کرلیا۔
اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ اپنی نبوت کے ابتدائی زمانہ میں 13 سال تک مکہ میں تھے۔ وہاں آپ کعبہ میں جاتے اور نماز ادا فرماتے اور لوگوں کو دعوت پہنچاتے، حالاں کہ اس زمانے میں کعبہ کی عمارت میں کھلے طورپر 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ اگر اس واقعہ کو منفی زاوییسے دیکھا جائے تو وہ شرک کا انڈورسمینٹ (endorsement) نظر آئے گا۔لیکن رسول اللہ نے اس کو دعوت کے زاویے سے دیکھا۔ آپ نے یہ فارمولا اختیار کیا کہ— بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کرو اور وہاں موجود لوگوں میں اپنا پیغام پہنچاؤ۔
ہم نے اپنے دعوتی مشن میں اسی پیغمبرانہ طریقہ کو اختیار کیاہے۔ ہم لوگوں کو دشمن اور دوست کے اعتبار سے نہیں دیکھتے۔ ہم ہر انسان کو صرف انسان کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ہر عورت اور ہر مرد کو ہم حق کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم ہر اجتماعی موقع پر جاتے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن کا ترجمہ او ردوسری اسلامی کتابیں ہوتی ہیں ان کو ہم ایک ایک شخص تک پہنچاتے ہیں۔مذکورہ اجتماع میں پورے انڈیا کے تقریباً تمام ٹاپ کے کٹر ہندو لیڈر موجود تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر اُن لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ الناس أعداء ما جہلو کی مثال ہے۔ جو لوگ دعوت کے فرض سے غافل ہیں، جو یہ نہیں سمجھتے کہ مسلمان کا دوسرے انسانوں سے تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہے،وہ اس معاملے میں غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔وہ انسانوں کو دوست اور دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ کسی کو اپنا اور کسی کو غیر سمجھتے ہیں۔ وہ کسی سے محبت کرتے ہیں ا ور کسی سے نفرت۔ ایسے لوگ ایک داعی کی پوزیشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ ہمارے بارے میں کسی انگریزی یا ہندی اخبار میں ایک خبر پڑھ کر رائے نہ بنائیں بلکہ خود ہماری تحریروں کو پڑھ کر ہمارے بارے میں رائے بنائیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی مذکورہ قسم کی غلط فہمی نہیں ہوگی۔
سوال
قرآن کی تین آیتوں کے بارے میں استفسار مطلوب ہے۔ براہِ کرم، جواب دے کر ممنون فرمائیں:
1 - ’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اقتدار دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جما دے گا، جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں ‘‘ (النور: 55)۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت فی الارض کا وعدہ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی انعام ہے جو ایمان اور عمل صالح کے حقیقی تقاضوں کو پورا کریں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے نہ صرف بڑے حصے پر بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں مسلمان آباد ہیں اور ان کی حکمرانی بھی ہے، اُس پر ان عالمی طاقتوں کا قبضہ اور غلبہ ہے جو حقیقۃً ایمان اور عمل صالح سے محروم ہیں،بلکہ بعض ممالک ایسے بھی ہے جیسے روس، چین، جاپان، وغیرہ نہ صرف ایمان اور عمل صالح سے تہی دامن ہیں، بلکہ وہ خدا کے وجود کے بھی قائل نہیں ہیں۔ لیکن اس کے برعکس خود کو صاحب ایمان بتانے والے لوگ موجودہ دور میں ان عالمی طاقتوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں اور وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کے محتاج اور دست نگر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خلافت فی الارض محض خدائی انعام ہے اور یہ انھیں لوگوں کو ملنے والا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی روش کو اختیار کریں تو پھر جو قومیں سرے سے ایمان اور عمل صالح کے تصور سے عاری ہیں، ان کو استحکام کس بنیاد پر ملا ہوا ہے۔
2 - قرآن میں ایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ان کو سونے کے وقت، پھر وہ ان کو روک لیتا ہے جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے رہا کردیتا ہے، بے شک ا س میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور کرتے ہیں ‘‘ (الزمر:42)۔
اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کی موت اس کی نیند کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص کے لئے موت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ رات کو جب سوئے گا تو اگلے دن وہ نہیں اٹھے گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں کسی کی موت کا واقعہ ہونا بہت ہی شاذ ونادر ہے۔ عام طورپر لوگوں کی موت جاگتے ہوئے آتی ہے۔ اس کے علاوہ حادثات وغیرہ بھی زیادہ تر دن میں ہی ہوتے ہیں۔آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لئے میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
3 - قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہواہے: ألم تروا کیف خلق اللہ سبع سموات طباقا (نوح: 15) یعنی کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے۔
سوال یہ ہے کہ جب سات آسمان تہ بہ تہ نظر نہیں آتے تو پھر اس کو مخاطب کس طرح تسلیم کرے گا۔ کیوں کہ سات آسمانوں کو تہ بہ تہ دیکھنا نہ صاحب ایمان کے لیے ممکن ہے اور نہ منکرین حق کے لیے۔ تاہم اگر اس رویت سے رویت ِ عینی مراد لی جائے تو پھر اس کوعمومی طورپر سمجھنا مشکل ہے۔لیکن اگر اس سے رویت قلبی مراد لی جائے اور اسلوب بیان کو محاورات عرب پر محمول کیا جائے تو اس آیت کو دلیل بنا کر پیش کرنے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ تقریباً دو سوسال سے فلکیات سے متعلق ہونے والی تحقیقات کے باوجود ابھی ہم اس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ تاہم اگر چہ پچھلی چند دہائیوں میں فلکی طبیعات کے سلسلے میں چند انتہائی دلچسپ دریافتیں ضرور ہوئی ہیں اور ان سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہوئی ہے۔مگر جس زمانے میں یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، اس زمانے میں سائنسی تحقیقات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ اس صورت حال میں قرآن کے اولین مخاطب کے لیے سات آسمانوں کا تہ بتہ ہونا کیسے سمجھ میں آسکتا تھا اور وہ ان کو دلیل کے طورپر کیسے دیکھ یا جان سکتے تھے۔ جب کہ موجودہ دور میں بھی کسی آدمی کے لئے راست انداز میں سات آسمانوں کا مشاہدہ اور نظارہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں قرآن کی اِس آیت کا مفہوم آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ اپنے جواب سے ضرور نوازیں گے (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر)
جواب
1 - خلافتِ ارضی کسی گروہ کا حق (right) نہیں ہے، نہ مسلم گروہ کا اور نہ غیر مسلم گروہ کا۔ خلافتِ ارضی کا فیصلہ اللہ کی ایک سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ سنت اصلاً تعمیر ِ دنیا کے اصول پر قائم ہے۔ جس گروہ کے اندر مقابلۃً تعمیر دنیا کی زیادہ صلاحیت ہو، اس کو زمین کی خلافت عطا کی جاتی ہے۔ کسی مفسد گروہ کے لیے کبھی خلافتِ ارضی کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر دنیا میں دوگروہ ہوں اور دونوں تعمیر ِ دنیا کی تقریباً یکساں صلاحیت رکھتے ہوں، تو اُس گروہ کو ترجیح دی جائے گی جو تعمیر دنیا کے ساتھ ایمان کی صفت اپنے اندر رکھتا ہو، بصورتِ دیگر خلافت ِ ارضی کا فیصلہ غیر مومنین کے لیے کردیا جائے گا۔ موجودہ زمانے میں جن گروہوں کو خلافتِ ارضی حاصل ہے، ان کے بارے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ مقابلۃً تعمیر دنیا کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا معاملہ ہے، وہ نہ صرف یہ کہ تعمیر ِ دنیا کی صلاحیت سے محروم ہیں، بلکہ وہ اپنے ایمانی زوال کی آخری حد پرپہنچ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں اقبال کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے:
تیرے محیط میں کہیں، گوہرِ زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج، دیکھ چکا صدف صدف
واضح ہو کہ عمل صالح سے مراد صرف عبادتی عمل نہیں ہے۔ اس میں وہ چیز بھی شامل ہے جس کے لیے ہم نے تعمیر دنیا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شخصی نجات کے لیے ایمان اور اخلاص کافی ہے، لیکن خلافتِ ارضی کا فیصلہ صرف ایمان اور اخلاص کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس کا فیصلہ اُس عملِ صالح کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس میں دنیا کی مثبت تعمیر لازمی طورپر شامل ہو۔
2 - سورہ الزمر میں موت کے وقت وفات کی بات معروف معنی میں موت کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ وہ شِبہہِ موت کے معنی میں ہے۔ اِس آیت کا مطلب دراصل یہ ہے کہ جس طرح نیند کی حالت میں روزانہ تم کو موت کا جزئی تجربہ ہوتا ہے، اُسی طرح آخر کار وہ دن آئے گا، جب کہ تم کو موت کا کلّی تجربہ ہوگا۔ اِس آیت کا مقصد نیند کی حقیقت بتانا نہیں ہے، بلکہ ایک مثال کے ذریعے موت کو قابلِ فہم بنانا ہے۔یہی اسلوب حدیث میں بھی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی تو مکہ میں آپ نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا تھا: واللہ لتموتنّ کما تنامون، ولتبعثن کما تستیقظون ( أنساب الأشراف للبلاذری، رقم الحدیث: 50) یعنی خدا کی قسم، تمھیں مرنا ہے جس طرح تم سوتے ہو، اور پھر تم کو دوبارہ اٹھنا ہے جس طرح تم جاگتے ہو۔
اصل یہ ہے کہ اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بطور تمثیل ہے، نہ کہ بطور تبیین۔ اِس میں نیند کو موت سے تشبیہہ دی گئی ہے اور بعث بعد الموت کو بیداری کی مثال کے ذریعے قابلِ فہم بنایا گیا ہے۔ گویا کہ نیند ایک جزئی موت ہے، اور جزئی موت کی مثال سے کلی موت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
3 - سورہ نوح کی مذکورہ آیت کے بارے میں عرض ہے کہ اِس کے دو پہلو ہیں۔ اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ سماوات کی دنیا سات طبقوں میں تقسیم ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ بے حد وسیع ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص اس کی وسعت کا کامل اندازہ نہیں کرسکتا۔
جہاں تک تعداد کی زبان میں سماوات کے سات ہونے کا معاملہ ہے، وہ ابھی تک غیر معلوم ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، کیوں کہ ساری ترقی کے باوجود انسان، کائنات کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ مثال کے طورپر جدید تحقیقات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ وسیع کائنات کا 95 فی صد سے زیادہ حصہ ناقابلِ مشاہدہ ہے۔ اِس ناقابلِ مشاہدہ حصۂ کائنات کو ڈارک میٹر (dark matter) یا بلیک ہول (black hole) کہا جاتا ہے۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کائنات بے حد وسیع ہے۔ اِس وسعت کا علم آج بھی انسان کو حاصل نہیں۔ مذکورہ آیت میں جو چیز بنائِ استدلال ہے، وہ سات کی گنتی نہیں ہے، بلکہ وہ کائنات کی وسعت ہے۔ یہ لامحدود وسعت ثابت کرتی ہے کہ اس کا خالق ایک انتہائی عظیم ہستی ہے۔ وہ بے پناہ قدرت اور طاقت کا حامل ہے۔ گنتی کے پہلو کو دوسری بہت سی غیر معلوم چیزوں کی طرح ایک غیر معلوم چیز مان لیا جائے تو خالق کی عظمت وقدرت کے ثبوت کے لیے سماوات کا ظاہرہ بالکل کافی ہے۔
سوال
آپ نے ’’دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب‘‘ کے عنوان سے ماہ نامہ الرسالہ میں بار بار لکھا ہے۔ الرسالہ فرور ی 2010 میں ’’اسلام کے نام پر غیر اسلام‘‘ کے عنوان سے جو مضمون ہے، اس میں آپ نے اِن اصطلاحات پر کافی اچھی روشنی ڈالی ہے۔الرسالہ دسمبر 2003 اور اپریل 2005 میں بھی اس موضوع پر آپ نے بحث کی ہے۔ ان مضامین نے میرے ذہن پر نہایت مثبت اثر ڈالا ہے۔ آپ کے مطابق، یہ اصطلاحیں سیاسی بدعت اور اجتہادی خطا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مگر آپ کا یہ جملہ ’’اِس لئے صحیح اسلامی نظریہ کے مطابق، صرف دو اصطلاحیں درست ہیں— دار الاسلام اور دار الدعوہ‘‘ (امن عالم، صفحہ 156) کنفیوژن پیدا کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دار الاسلام کی اصطلاح اگر ایک سیاسی بدعت ہے تو پھر آپ کا یہ لکھنا کہ دارالاسلام کی اصطلاح درست ہے، کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ (رستم علی، پٹنہ، بہار)
جواب
دار الاسلام اور دار الکفر کی اصطلاحات کو بطور فقہی اصطلاحات مان لیا گیا ہے۔ مجھے اِس اصطلاح سازی سے اختلاف ہے۔ کیوں کہ اس قسم کی اصطلاح بعد کو عباسی دور میں اختیار کی گئی۔ اِس سے پہلے صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اِس قسم کی قانونی اصطلاحات کا کوئی وجود نہ تھا۔
جہاں تک دار الانسان یا دار الدعوہ کا تعلق ہے، اُس کو میں نے متبادل فقہی اصطلاح کے طورپر تحریر نہیں کیا ہے۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ اگر اِس معاملے میں اصطلاح بنانا ہو تو قرآن اور حدیث کی روشنی میں دار الانسان اور دار الدعوہ جیسی اصطلاح بنانا درست ہوسکتا ہے۔میں نے اِس معاملے میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ موجودہ ممالک حکماً دار الانسان اور دار الدعوہ ہیں۔ میں نے یہ الفاظ اِس معاملے میں مسلمانوں کی ذمہ داری کو بتانے کے لیے استعمال کئے ہیں، نہ کہ فقہی معنوں میں اصطلاح سازی کے لیے۔