قانونِ التباس
قرآن کی سورہ نمبر6 میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر کے منکرین نے کہا کہ اگر اللہ کو اپنا پیغام ہمارے پاس بھیجنا تھا تو وہ فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام بھیجتا، تاکہ ہمیں اس کی حیثیت کے بارے میں شبہہ نہ ہو اور ہم کسی اشتباہ کے بغیر اس کا اقرار کرلیں۔ اِس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ فرشتے کو پیغمبر کی حیثیت سے بھیجتا تو اُس کو بھی انسان بنا کر بھیجتا اور: وللبسنا علیہم ما یلبسون (الأنعام: 9) یعنی ہم پھر بھی اُن کو اُسی شبہہ میں ڈال دیتے جس شبہہ میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔
یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں، اِس آیت میں دراصل اللہ کے عام قانونِ التباس کو بتایا گیا ہے۔ اللہ نے انسان کوچوں کہ آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے، اِس لیے اِس دنیا میں ہمیشہ ہر معاملے کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر (element of doubt) موجود رہتا ہے۔
یہ موجودہ دنیاکے لیے ایک عام قانون ہے کہ یہاں ہر واقعے کے ساتھ شبہہ کا ایک عنصر شامل رہے۔ اِس دنیا میں ہدایت صرف اُس شخص کو ملتی ہے جواپنے شعور کو متحرک کر کے شبہہ کے پردے کو پھاڑے، اور شبہہ کے باوجود حقیقت کو کامل یقین کے ساتھ دریافت کرسکے۔
قانونِ التباس کا یہ معاملہ تمام پیغمبروں کے ساتھ موجود تھا۔ اِسی طرح یہ معاملہ قیامت تک ہمیشہ باقی رہے گا۔ جب بھی کوئی داعی، سچا مصلح اور سچا مجدد اٹھے گا تو اس کی شخصیت کے ساتھ لازماً شبہہ کا یہ عنصر شامل رہے گا، حتی کہ آخری زمانے میں ظاہر ہونے والے مہدی اور مسیح کا معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مہدی اور مسیح کی شخصیت کے ساتھ بھی شبہہ کے اسباب لازماً موجود رہیں گے۔
پیغمبر کی طرح مہدی اور مسیح کو بھی وہی لوگ پہچانیں گے اور اُن کا ساتھ دیں گے جو شبہہ کے پردے کو پھاڑنے کی نادر صلاحیت رکھتے ہوں۔ اِس دنیا کے لیے خدا کا قانون یہ ہے کہ یہاں کوئی اعلیٰ سعادت صرف اُس شخص کو ملے جو شبہات سے بلند ہو کر سچائی کو پہچانے اور یقین کے ساتھ اس کا مکمل ساتھ دے سکے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا آزمائش (test) کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس بنا پر یہاں حقیقتوں کو دو اور دو چار کی طرح نہیں کھولا گیا ہے۔ یہاں ہر حقیقت کے ساتھ شبہہ کا عنصر (element of doubt) موجود ہے۔ یہ اصول پیغمبر کے زمانے میں بھی تھا اور وہ آئندہ بھی قیامت تک باقی رہے گا۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے دجّال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہوگا۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا معاملہ مذکورہ قانونِ عام سے مستثنیٰ نہیں۔
اِس قانونِ عام کے مطابق، ایسا ہر گز نہیں ہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور اِس طرح برہنہ انداز میں ہو کہ لوگ کسی شبہہ یا کسی مغالطہ کے بغیر اُن کو جان لیں اور فوراً اُن کے معاملے میں اپنے مطلوب رویّے کو اختیار کرلیں۔ دجال اور مہدی اور مسیح کے ساتھ یقینی طورپر اُسی طرح شبہہ کا عنصر موجود رہے گا، جس طرح وہ اِس سے پہلے پیغمبروں کے ساتھ موجود تھا۔
حدیث میں بیان کردہ علامتیں بتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت قریب ہے۔ اِس اعتبار سے غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال اور مہدی اور مسیح کا ظہور ہوچکا ہے۔
ضرورت ہے کہ لوگ اِس معاملے میں کامل سنجیدگی کے ساتھ متجسس (curious) بنیں اور اپنے ایمانی تقاضوں کو پورا کریں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ تاریخ کا کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) اپنی آخری گنتی پر پہنچ جائے اور فرشتہ اسرافیل قیامت کا صور پھونک دے۔
جب ایسا ہوگا تو اس کے بعد کسی کے لیے نہ توبہ کا وقت ہوگا اور نہ اعتراف کا۔ صورِ اسرافیل سے پہلے تمام حقیقتیں شبہہ کے پردے میں ہیں، صورِ اسرافیل اِس پردے کو پھاڑ دے گا اور اس کے بعد تمام حقیقتیں عیاناً سامنے آجائیں گی۔