جب قیامت قریب آجائے گی
قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنۂ دہیماء کہاگیا ہے۔ فتنۂ دہیماء سے مراد: الفتنۃ السوداء المظلمۃ ہے، یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی (intellectual darkness) کہا جاسکتا ہے۔ فتنۂ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میں مختلف قسم سے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔
اِس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق، کسی بندۂ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہوگی۔ بہت سے لوگ جو اِس کامل سچائی کو دلائل کی روشنی میں جانچیں گے، وہ نظری طورپر جان لیں گے کہ یہی خدائی سچائی ہے۔ لیکن خدائی سچائی ہمیشہ انسانوں میں سے کسی انسان کے ذریعے ظاہرہوتی ہے۔ اس لیے نظری اعتراف کے باوجود اُس میں شبہہ کا ایک عنصر (element of doubt) ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ یہ صورتِ حال اہلِ ایمان کے لیے ایک نازک امتحان کا سبب بن جاتی ہے۔
اِس صورتِ حال میں اہلِ ایمان کے لیے بظاہر دو موقف ہوتے ہیں— ایک، یہ کہ وہ نظری اعتراف کے باوجود عملی طورپر غیر جانب داری (indifference) کا رویہ اختیا رکرلیں۔ دوسرا، یہ کہ وہ اجتہاد کریں اور اپنے اجتہاد کے مطابق، جو سچائی ظاہر ہوئی ہے، بھر پور طور پر وہ اس کے ساتھی بن جائیں۔ خالص شرعی اعتبار سے، پہلا موقف اختیار کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ اِس طرح کی صورتِ حال میں غیر جانب داری کا موقف ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے، یقینی طورپر وہ کوئی جائز موقف نہیں۔
اِس طرح کی صورتِ حال میں درست موقف یہی ہے کہ اہلِ ایمان اجتہاد کرتے ہوئے شبہہ کے پر دے کو پھاڑیں اور دوڑ کر سچائی کا ساتھ دیں۔ یہ وہ موقع ہے جب کہ اجتہاد فرض ہوجاتا ہے۔ اگر آدمی کا اجتہاد درست تھا تو حدیث کے مطابق، اُس کو اللہ تعالیٰ کے یہاں دوہرا اجر ملے گا۔ اور اگر بالفرض اُس نے اجتہادی خطا کی ہے، تب بھی اس کے لیے ایک اجر کی بشارت ہے (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام، باب أجر الحاکم)۔ اجتہادی خطا پر بھی اجر کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے موقع پر غیر جانب دارانہ رویہ سرے سے جائز ہی نہیں۔ ایسے موقع پر آدمی کو ہر حال میں اجتہادی فیصلہ کرنا ہے، خواہ اس کے لیے اجتہادی خطا کا رِسک (risk) کیوں نہ موجود ہو۔
اِس سلسلے میں ایک متعلق روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح البخاری کے الفاظ یہ ہیں: إذا اقترب الزّمان لم تکد رؤیا المؤمن تکذب (کتاب التعبیر، باب القید فی المنام) یعنی جب (قیامت کا) زمانہ قریب آئے تو مومن کا خواب جھوٹا خواب نہیں ہوگا۔
اِس حدیث کی شرح میں ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ: إن المراد بالزمان المذکور زمان المہدیّ (فتح الباری 12/223) یعنی اس روایت میں جس زمانے کا ذکر ہے، اُس سے مراد مہدی کا زمانہ ہے۔ اِسی طرح سنن الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں اِس روایت کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: قالوا: یرید بہ زمن خروج المہدیّ(6/56) یعنی علماء نے کہا ہے کہ اِس زمانے سے مراد مہدی کے خروج کا زمانہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ مہدی کا زمانہ فتنۂ دہیماء کا زمانہ ہوگا۔ اُس زمانے میں افکار کی کثرت کے نتیجے میں حقائق مشتبہ ہوجائیں گے۔ تمام لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ ایسی حالت میں مہدی کے ظہور کے باوجود لوگوں کے لیے مہدی پر یقین کرنا مشکل ہوجائے گا۔ لوگ دیکھیں گے کہ مہدی جو بات کہہ رہا ہے، وہ پوری طرح مبنی برحق ہے۔ لیکن مہدی عام انسان جیسا ایک انسان ہوگا، اِس بنا پر لوگوں کے لیے شبہہ کا ایک عنصر باقی رہے گا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید رؤیائِ صادقہ (سچے خواب) کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق، جن لوگوں کے اندر سچی تلاش کا جذبہ ہوگا، اُن کو مہدی کی نسبت سے تائیدی خواب دکھائے جائیں گے۔ یہ خواب گویا کہ مہدی کے حق میں تائید ِ مزید (additional support) کے ہم معنی ہوں گے۔ ایسے خوابوں کو دیکھنے والے اہلِ ایمان یہ یقین کرلیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں مہدی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور پھر وہ دل سے اس کے ساتھی بن جائیں گے۔