خاتمہ کا آغاز
خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسانی تاریخ کے دو دور ہیں— قیامت سے پہلے کا دور، اور قیامت کے بعد کا دور۔ قرآن اور حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت جب قریب آجائے گی تو کچھ کھلی کھلی علامتیں (signs) ظاہر ہوں گی، یہ اِس بات کا اعلان ہو گا کہ انسانی تاریخ کے پہلے دور کا خاتمہ قریب آگیا ہے۔ اِن علامتوں میں سے ایک علامت وہ ہے جس کے لئے قرآن اور حدیث میں دُخان، یعنی دھواں (smoke) کا لفظ آیا ہے، اِس سلسلے میں قرآن کی آیت یہ ہے: فارتقب یوم تأتی السماء بدخان مبین۔ یغشی الناس، ہذا عذاب ألیم (الدخان: 10-11) یعنی انتظار کرو اس دن کا جب آسمان ایک کھلے ہوئے دھوئیں کے ساتھ ظاہر ہوجائے گا۔ وہ لوگوں کو گھیر لے گا۔ یہ ایک دردناک عذاب ہے:
Watch out for the Day when the sky brings forth plainly visible clouds of smoke. That will envelop the people. This will be a painful punishment . (44: 10-11)
اپریل 2010 میں یورپ میں جو واقعہ پیش آیا، وہ غالباً اسی پیشین گوئی کے مطابق تھا۔ 14 اپریل 2010 کو یورپ کے ملک آئس لینڈ (Iceland) میں اچانک ایک آتش فشاں پھٹ پڑا۔ یہ آتش فشاں برف کے پہاڑ(glaciers) کے نیچے تھا۔ اس کے نتیجہ میں اتنا زیادہ راکھ نکلی جو تقریباً پورے یورپ کی فضا میں پھیل گئی۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ یورپ کے شہروں میں ہر دن تقریباً 30 ہزار فلائٹس آپریٹ کی جاتی ہیں، مگر اس کے نتیجے میں نصف سے زیادہ جہازوں کی آمد ورفت بند ہوگئی۔ اس قدرتی آفت کے نتیجہ میں ہوائی کمپنیوں کو ہردن تقریباً دو سو ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔ نہ صرف یورپ بلکہ دوسرے ملکوں کی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں۔ یہ سلسلہ ایک ہفتہ سے زیادہ مدت تک جاری رہا۔ اس قسم کی قدرتی آفت معلوم تاریخ میں پہلی بار ظاہر ہوئی ہے۔
یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ آئس لینڈ کا آتش فشانی انفجار وہی دخان تھا جس کی پیشین گوئی قرآن اور حدیث میں بہت پہلے کی گئی تھی۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ غالباً دوسرے نشانات جو حدیث میں بتائے گئے ہیں،وہ ظاہر ہوچکے ہیں۔ دخان کا معاملہ غالباً آخری نشانی سے پہلے کی نشانی (last but one) کا معاملہ ہے اس کے بعد جو نشانی ظاہر ہونے والی ہے، وہ غالباً سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا ہے۔ اس کے بعد غالباً آخری واقعہ ہوگا، یعنی فرشتہ اسرافیل کا صور پھونکنا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہذا عذاب ألیم۔ یہاں عذاب سے مراد غالباً قیامت کا عذاب نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے لیے قرآن (السجدۃ: 21) میں دوسری جگہ عذابِ ادنیٰ کا لفظ آیا ہے (ولنذیقنہم من العذاب الأدنی دون العذاب الأکبر)۔ قرآن کے مطابق، بڑا عذاب وہ ہے جو قیامت کے وقت صورِ اسرافیل کے بعد آئے گا، لیکن اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے علامتی عذاب آئیں گے، تاکہ لوگ متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلیں۔ گلوبل وارمنگ، پانی کی شدید قلت، زلزلوں کی کثرت اور دخان وغیرہ، اِسی قسم کے چھوٹے عذاب ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان متنبہ ہو، اِس سے پہلے کہ وہ وقت آجائے جب کہ متنبہ ہونا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔