دوسرے کے لیے دعاء
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں: دعوۃ المرء المسلم لأخیہ بظہر الغیب مستجابۃ، عند رأسہ ملک موکَّل، کلّما دعا لأخیہ بخیر، قال الملک الموکّل بہ آمین ولک بمثل (کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب) یعنی آدمی جب اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اُس کے لیے دعاء کرتا ہے تو ایسی دعاء قبول ہوتی ہے۔ اس کے پاس ایک فرشتہ موجود رہتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر کی دعاء کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تمھاری دعاء قبول ہو اور اسی کے مثل تمھارے لیے بھی۔
دوسرے کی غیر موجودگی میں اس کی بھلائی کے لیے دعا کرنا، ہمیشہ انسانی خیر خواہی کے جذبے سے ہوتا ہے۔ انسان کے لیے سچی خیر خواہی ایک عظیم عبادت ہے۔
جب بھی کسی آدمی کے اندر دوسرے انسان کے لیے سچی خیر خواہی کاجذبہ ابھرے اور وہ اُس انسان کی غیر موجودگی میں اس کے لیے اللہ سے دعاء کرے، تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایسی دعا کبھی ضائع نہیں جاتی۔
لیکن کوئی بھی دعاء سنت اللہ کو منسوخ کرنے والی نہیں بن سکتی۔ دعاء کی قبولیت ہمیشہ سنت اللہ کے مطابق ہوتی ہے۔ جہاں تک دعاء کرنے والے کی ذات کا تعلق ہے، اس کو اپنے جذبۂ خیر خواہی کی بنا پر ضرور ثواب ملے گا۔لیکن جس شخص کے لیے دعاء کی گئی ہے، اُس کے لیے دعاء کی قبولیت اِس پر منحصر ہے کہ وہ شخص واقعۃً خود اپنے اندر اِس کا کتنا زیادہ استحقاق رکھتا ہے۔
اللہ کی سنت کے مطابق ایسا نہیں ہوسکتا کہ دوسرا شخص خود اپنی ذات میں قبولیت کا استحقاق نہ رکھتا ہو، اِس کے باوجود اس کو دعاء کا فائدہ حاصل ہوجائے۔ کسی کے لیے دعاء کرنا بلاشبہہ ایک عبادت ہے۔ لیکن کسی کے حق میں دعاء کا قبول ہونا خالص ایک خدائی معاملہ ہے۔ یہ صرف اللہ کو معلوم ہے کہ ذاتی استحقاق کے اعتبار سے کون اِس کا اہل ہے اور کون اِس کا اہل نہیں۔