نہ ماننے کا مزاج

جب اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان (آدم)کو پیدا کیا تو اُس وقت دو اور مخلوق، جنات اور فرشتے، موجود تھے۔ اللہ نے دونوں سے کہا کہ تم انسان کے آگے جھک جاؤ۔ فرشتے جھک گئے، لیکن جن کا سردار ابلیس نہیں جھکا۔ یہ ایک مظاہرہ تھا۔ اِس کے ذریعے انسان کو بتایا گیا کہ ماننے کا مزاج ملکوتی مزاج ہے اور نہ ماننے کا مزاج شیطانی مزاج۔ کسی کی بڑائی کا اعتراف کرکے آدمی فرشتوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور بڑائی کا اعتراف نہ کرنے سے وہ شیطان کی جماعت کا ممبر بن جاتا ہے۔

آغازِ تخلیق میں ابلیس نے کہا تھا کہ میں تمام انسانوں کو بہکاؤں گا، یہاں تک کہ وہ میرے راستے پر چلنے لگیں گے۔ ابلیس کا یہ اعلان بہت زیادہ سنگین ہے۔ وہ اِس دنیا میں کسی انسان کے لیے صحیح اور غلط کا معیار بتا رہا ہے۔ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جانچے اور دیکھے کہ وہ اپنی زندگی میں فرشتوں کے راستے پر چل رہا ہے، یا ابلیس کے راستے پر۔

خالق نے اِس دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ لوگوں کے درمیان برابری نہیں ہے۔ مختلف پہلوؤں سے لوگوں کے درمیان فرق پایا جاتا ہے، کوئی کم ہے او رکوئی زیادہ۔ یہ صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے لیے آزمائش ہے۔اِس دنیا میں ہر ایک کا سابقہ کہیں نہ کہیں کسی ایسے انسان سے پیش آتا ہے جو کسی پہلو سے اس کے مقابلے میں بڑائی رکھتا ہو۔ یہ بڑائی خدا کی دی ہوئی ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ایسے ہر موقع پر وہ کھلے طورپر دوسرے انسان کا اعتراف کرے۔ یہ اعتراف اُس کے لیے سب سے بڑی نیکی کے ہم معنیٰ ہے۔

بڑائی کے انکار کی دو صورتیں ہیں— ایک یہ کہ براہِ راست طورپر اس کا انکار کیا جائے۔ دوسرا طریقہ بالواسطہ انکار کاطریقہ ہے، یعنی ایک ایسی بات کہنا جس سے بالواسطہ طورپر دوسرے انسان کی بڑائی کی نفی ہوتی ہو۔ یہ دونوں طریقے یکساں طورپر برے طریقے ہیں، حقیقت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom