قانونِ شریعت، قانونِ رحمت

قرآن کی سورہ نمبر 4 میں قانونِ وراثت کے ذیل میں ایک آیت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے: ’’اور جب حاضر ہوں تقسیم کے وقت رشتے دار اور یتیم اور محتاج تو اُن کو کچھ دے دو اُس میں سے اور کہہ دو اُن کو معقول بات‘‘۔ (النساء:8)

اِس کا مطلب یہ ہے کہ تقسیم میراث کے وقت اگر خاندان کے ایسے افراد وہاں آجائیں جن کو ازروئے قانون میراث میں حصہ نہیں پہنچتا تو ان کو بھی ترکہ کے سامان میں سے کچھ دے دو، ان کو محروم نہ لوٹاؤ۔ بظاہر یہ میراث کی ایک آیت ہے، لیکن اِس میں دعا کے لیے ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) ملتا ہے۔ایک مومن جب اِس آیت کو پڑھے گا تو وہ تڑپ اٹھے گا۔ وہ کہے گا کہ خدایا، یہی معاملہ میرا جنت کی نسبت سے ہے۔ میرے پاس کوئی بھی ایسا عمل نہیں جو مجھ کو جنت کا مستحق بنائے۔ لیکن میراث کی اِس آیت میں تونے یہ اصول بتایا ہے کہ تقسیم میراث کے وقت اگر کچھ ایسے افرادِ خانہ وہاں آجائیں جو ازروئے قانون اس میں حصہ پانے کے مستحق نہ ہوں، تب بھی ازراہِ شفقت اُن کو ترکہ کے سامان میں سے کچھ دے دو۔

قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے کہ—خدایا، میں آخری حد تک ایک بے مایہ انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت اتنی وسیع ہے کہ وہ غیر مستحق انسانوں تک بھی پہنچتی ہے۔ خدایا، تیری یہی رحمت میرے لیے امید کا سہارا ہے۔ تیرے اپنے قائم کردہ اِس اصول کے حوالے سے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ عدم استحقاق کے باوجود تو مجھ کو اپنی رحمتوں میں حصے دار بنادے۔ میرے جیسے غیر مستحق کو بھی تو اُس جنت میں جگہ دے دے جو صرف مستحق افراد کے لیے بنائی گئی ہے۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ قانون شریعت کے مطابق، میں جنت کا مستحق نہیں، لیکن قانونِ رحمت کے مطابق، تو مجھ کو اپنی جنت میں داخل کردے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom