زندگی کا فارمولا
انسان کے لیے زندگی کا کامیاب فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے— آخرت کے لیے غم، اور دنیا کے لیے بے غم۔ یہی انسان کے تمام معاملات کا خلاصہ ہے۔ یہی واحد طریقِ زندگی (way of life) ہے جس میں انسان اپنے لیے سکون پاسکتاہے۔
انسان کے اندر پیدائشی طورپر طلب کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ انسان اپنی پوری ساخت کے اعتبار سے چاہتا ہے کہ کوئی چیز ہو جس کو وہ اپنا اصل کنسرن (sole concern) بنائے، جس کے حصول کے لیے وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توانائی (energy)صرف کرے۔ یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے، اور کوئی بھی شخص اِس فطری تقاضے سے خالی نہیں۔
انسان جب پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے گرد و پیش ایک مادّی دنیا (material world)پھیلی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اِس مادّی دنیا کے حصول کو اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہے۔ وہ اُس کے حصول کے لیے رات دن کوشش کررہا ہے۔ اِس ماحول میں ہر پیدا ہونے والا آدمی وہی کرنے لگتا ہے جو دوسرے عورت اور مرد کررہے ہیں۔
مگر اِس کا نتیجہ کیا ہے۔ ہر آدمی ساری جدوجہد کے باوجود اپنے مطلوب کو حاصل نہیں کرپاتا اور مایوسی (despair) کے احساس میں مرجاتا ہے۔ اِس دنیا میں بیماری، حادثہ، بڑھاپا، نقصانات اورموت، فیصلہ کُن طورپر اِس راہ میں رکاوٹ ہیں کہ آدمی اِس دنیا میں اپنی طلب کی تکمیل کرسکے۔
یہ عمومی نتیجہ ہر عورت اور مرد کے لیے ایک رہ نما واقعہ ہے۔ یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ فطرت کی طلب کی تکمیل (fulfillment) موجودہ دنیا میں ممکن نہیں، اس کے حصول کا مقام آخرت ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے کامیابی کا فارمولا صرف یہ ہے کہ وہ آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنائے، اور موجودہ دنیا کے معاملے میں وہ بقدر ضرورت پر راضی ہوجائے— دنیا میں بقدر ضرورت پر راضی ہوجانا، اور آخرت کو اپنا سپریم کنسرن بنا لینا، یہی اِس دنیا میں کامیاب زندگی کا فارمولا ہے۔