قیامت کا بھونچال

راقم الحروف کی کتاب—مذہب اور جدید چیلنج (God Arises) پہلی بار 1966 میں چھپی۔ اس میں دلیلِ آخرت (Argument for the Life Hereafter) کے باب کے تحت حسب ذیل سطریں درج تھیں:

“سب سے پہلا تجربہ جو ہم کو قیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے، وہ زلزلہ ہے۔ زمین کا اندرونی حصہ نہایت گرم سیّال (hot semi-molten) کی شکل میں ہے۔ اس کا مشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاوا کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مادّہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپر زبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسوس ہوتی ہے اور کش مکش کی وجہ سے جھٹکے پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی کا نام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوف ناک لفظ ہے۔ یہ انسان کے اوپر قدرت کا ایسا حملہ ہے جس میں فیصلے کا اختیار تمام تر دوسرے فریق کو ہوتا ہے۔ زلزلے کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم ایک سُرخ پگھلے ہوئے نہایت گرم مادّے کے اوپر آباد ہیں، جس سے صرف پچاس کلو میٹر کی ایک پتلی سی چٹانی تہہ (crust) ہم کو الگ کرتی ہے۔ یہ چٹانی تہہ زمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے، جیسے سیب کے اوپر اس کا باریک چھلکا۔ ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں— ہمارے آبادشہروں اور نیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنم (Physical Hell) دہک رہا ہے۔ گویا کہ ہم ایک عظیم ڈائنا مائٹ کے اوپر کھڑے ہوئے ہیں، جو کسی بھی وقت پھٹ کر سارے نظامِ ارضی کو درہم برہم کرسکتا ہے۔” (صفحہ 88)۔

45 سال پہلے یہ بات بطور امکان لکھی گئی تھی۔ اب یہ بات واقعہ بن چکی ہے۔ میڈیا میں ہر روز اس کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس داں اپنے سروے کی بنیاد پر مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ اب وہ دن زیادہ دور نہیں، جب کہ: إنّ زلزلۃ السّاعۃ شیٔ عظیم (الحج: 1) کی قرآنی پیشین گوئی واقعہ بن کرسامنے آجائے۔

اِس سلسلے کی ایک خبر وہ ہے جو حال میں میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا سورس یہ ہے:

US Geographical Survey, NASA, National Geographic, “Smithsonian Earth”.

نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (26 مارچ2008) میں یہ رپورٹ حسب ذیل عنوان کے تحت چھپی ہے:

Fire Underground.

اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا یلواسٹون نیشنل پارک ایک متحرک جوالہ ُ مکھی کے اوپر قائم ہے، جو کہ زمین کی سطح سے صرف پانچ میل نیچے ہے۔ بہ ظاہر اگرچہ اس کی کو ئی علامت دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ ایک انفجار (eruption) کی طرف جارہا ہے۔ اِس قسم کا انفجار ایک عظیم ہلاکت کا سبب ہوگا۔ یلو اسٹون کے نیچے اگر اِس قسم کا انفجار ہوتا ہے، تو وہ امریکا کے بڑے رقبے کو قبرستان بنا دے گا:

Yellowstone National Park sits on an active volcanic system. Yellowstone’s magma chamber lies 5 miles below surface and although the system shows no signs that it is headed toward an eruption, such an eruption could be catastrophic.... If another eruption were to occur at Yellowstone, thick ash deposits would bury vast areas of the United States. (p. 37).

خدا نے یہ دنیا ابدی طورپر نہیں بنائی ہے، بلکہ ایک محدود مدت کے لیے بنائی ہے۔ زیر زمین آتش فشاں اِس بات کی وارننگ ہے کہ یہ محدود مدت پوری ہوتے ہی سب کچھ پھٹ جائے گا اور پوری تہذیب ایک کھنڈر بن کر رہ جائے گی۔

مذکورہ سروے گویا کہ آنے والی قیامت کی ایک پیشگی خبر ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھئے تو اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان جاگ اٹھے۔ وہ آنے والے دن کی تیاری شروع کردے، اِس سے پہلے کہ وہ دن آجائے اور کسی کے لیے تیاری کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom