عقل اور جذبات
موجودہ دنیا میں کسی کام کے بننے یا بگڑنے کا اصول صرف ایک ہے۔ جو کام عقلی طورپر غور وفکر کے ذریعے کیا جائے، وہ ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور جو کام جذباتی ردّ عمل کی صورت میں کیا جائے، اُس کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ عقلی غور وفکر کے ذریعے کیے ہوئے کام کو مثبت عمل کہہ سکتے ہیں، اور جذبات کے تحت کیے ہوئے کام کو منفی عمل۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جب کہ آدمی کے اندرمنفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ مثلاً غصہ، حسد لالچ اور گھمنڈ، وغیرہ۔ یہ جذبات فوری طور پر آدمی کو شدت کے ساتھ متاثر کرتے ہیں۔ آدمی اگر اِس شدتِ تاثر کے تحت کوئی کام کرنے لگے، تو اِسی کا نام جذبات کے تحت کام کرنا ہے۔ ایسا کام کبھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتا۔ اُس میں حالات کا پورا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس طرح کا کام ہمیشہ بے نتیجہ انجام پر ختم ہوجاتا ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی کے اندر جذبات بھڑکیں، وہ کسی صورتِ حال کے نتیجے میں شدت تاثر میں مبتلا ہو، تو وہ فوری طورپر کوئی کارروائی نہ کرے۔ وہ صبر تحمل کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے معاملے کے تمام موافق پہلوؤں اور ناموافق پہلوؤں پر غور کرے۔ وہ اپنی عقل کو استعمال کرے اور دوسرے صاحب الرّاے لوگوں سے مشورہ کرے۔ اِس طرح کے ایک صابرانہ کورس سے گزرنے کے بعد وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
پہلا طریقہ گویا کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا طریقہ ہے۔ اور دوسرا طریقہ روشنی میں اپنا سفر طے کرنے کاطریقہ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ اندھیرے میں چھلانگ لگانا ہمیشہ آدمی کو ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔ اور روشنی میں سفر کا طریقہ ہمیشہ آدمی کو کامیابی تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔عقل اور جذبات دونوں فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہیں، مگر عقل کی حیثیت رہ نماکی ہے، اور جذبات کا کام یہ ہے کہ وہ عقل کی رہ نمائی میں زندگی کا سفر طے کرے۔ جذبات کو اگر رہ نما کی حیثیت دے دی جائے تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔