حُبّ ِالٰہی، محبت ِرسول
مومن سے یہ مطلوب ہے کہ اس کو خدا سے اور خدا کے رسول سے نہایت گہرا قلبی تعلق ہو۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کو خدا سے محبت کے درجے کا تعلق ہونا چاہیے (البقرۃ: 165)۔ جہاں تک رسول کا تعلق ہے، قرآن میں رسول کے لیے محبت کا لفظ نہیں آیاہے، بلکہ اتباع اور اطاعت کے الفاظ آئے ہیں (آل عمران: 31)۔ تاہم حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول سے بھی محبت کے درجے کا تعلق مطلوب ہے۔ البتہ اللہ سے محبت اور رسول سے محبت کے درمیان وہی فرق پایا جائے گا جو خود اللہ اور رسول کے درمیان پایا جاتا ہے۔
حبّ ِالٰہی سے مراد عشقِ الٰہی نہیں ہے۔ اِسی طرح محبت ِ رسول سے مراد عشقِ رسول نہیں ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا لفظ قرآن اور حدیث میں اجنبی ہے۔ اِس معاملے میں عشق کا تصور بلا شبہہ ایک مُبتدعانہ تصور ہے، جو بعد کے زمانے میں پیدا ہوا۔ محبت کا تعلق شعوری معرفت سے ہے، جب کہ عشق صرف ایک والہانہ کیفیت کا نام ہے۔ حقیقی محبت اعلیٰ معرفت کے ذریعے پیدا ہوتی ہے، جب کہ عشق ایک ایسی مبہم کیفیت کا نام ہے جس کو صرف وجد (ecstasy) اور بے خودی جیسی پُراسرار حالت سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
محبت ِ الٰہی کا سرچشمہ یہ ہے کہ آدمی جب بے شمار خدائی انعامات کے بارے میں سوچتا ہے، تو فطری طور پر اس کے اندر اِن انعامات کے مُنعم کے بارے میں گہرا جذبۂ اعتراف پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں رسول سے محبت کا جذبہ اِس اعتبار سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول کے ذریعے ہم کو خدا کی ہدایت ملی۔ اِس کے بغیر ہم خدا کی ہدایت سے محروم رہتے۔
دونوں کے درمیان فرق کو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ خدا سے محبت فوق الطبیعی جذبے کے تحت پیدا ہوتی ہے، اور رسول سے محبت طبیعی جذبے کے تحت۔ خدا سے محبت، ربّ العالمین سے محبت ہے، اور رسول سے محبت، رب العالمین کے فرستادہ سے محبت۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایؤمن أحدکم حتّٰی أکون أحبَّ إلیہ من والدہ وولدہ والنّاس أجمعین۔ ایک اور روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے: مِن أہلہ ومالہ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الإیمان، باب حبّ الرّسول) یعنی تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میں اس کے لیے اس کے والد سے اور اس کی اولاد سے اور اس کے اہل سے اور اس کے مال اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
محبت ِ رسول کے بارے میں جو روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، اُن میں یہ بات بہت زیادہ قابلِ غور ہے کہ اُن میں سے کسی روایت میں اِس قسم کے الفاظ نہیں آئے ہیں کہ تم رسول سے اُسی طرح محبت کرو، جس طرح تم خدا سے محبت کرتے ہو۔ اِس کے بجائے روایتوں میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں کہ تمھارا ایمان باللہ اُس وقت مکمل ہوگا، جب کہ تم رسو ل سے اُس سے بھی زیادہ محبت کرو جتنا کہ تم اپنے والد سے، اپنے اہل سے اور اپنے مال اور اولاد سے محبت کرتے ہو، یعنی اِن روایتوں میں خداکے برابر محبت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اپنی محبوباتِ دنیا سے زیادہ، رسول سے محبت کا ذکر ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں محبتوں میں ایک نوعی فرق ہے۔ حبّ ِ الٰہی بہ معنیٰ تعظیم اور اِجلال مراد ہے، اور حبّ ِ رسول بہ معنی ترجیح اور تقابل مراد ہے۔ حبّ ِ الٰہی ایک مطلق نوعیت کی محبت ہے۔ اِس کے مقابلے میں حبّ ِ رسول کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بہ مقابلہ محبوباتِ دنیا مراد ہے۔جو لوگ محبوباتِ دنیا سے اوپر نہ اٹھیں، وہ رسول کے ربّانی مشن میں اپنے آپ کو پوری طرح وقف نہیں کرسکتے۔ جوآدمی خدا کے رسول کو خدا کے رسول کی حیثیت سے پہچانتا ہے، وہ فوراً ہی یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اصحابِ رسول کی طرح رسول کے دعوتی مشن میں شامل ہوجائے۔ یہ شُمولیت اعلیٰ درجے میں اُسی وقت ہوسکتی ہے، جب آدمی کو رسول کے ساتھ محبت کے درجے کا تعلق پیدا ہوجائے۔
رسول سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول سے عاشقانہ اور والہانہ تعلق ہو، جیسا کہ کسی نعت خواں، یا قوّال میں بظاہر دکھائی دیتاہے۔ بلکہ رسول سے محبت کامطلب یہ ہے کہ رسول کے دعوتی مشن سے گہرا لگاؤ ہو۔ ہر دوسری چیز کو ثانوی (secondary) بناکر آدمی رسول کے دعوتی مشن کو اپنا دعوتی مشن بنالے، جس طرح خود رسول نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔