مسیحی مذہب کے عقائد
مارک جے ایچ کلاسین (Mark J.H. Klassen) کناڈا کے ایک مسیحی عالم ہیں۔ وہ کناڈا کی ایک کمپنی (Kalora Interiors International Inc.) کے نمائندہ (representative)کے طور پر نئی دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ 6 مارچ 2008 کو الرسالہ کے دفتر میں آئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر اقبال پردھان بھی موجود تھے۔ اُن سے دیر تک مسیحی مذہب اور اسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میں حضرت مسیح کو خدا کا پیغمبر مانتا ہوں، لیکن میں اُن کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ میں نے کہا کہ موجودہ مسیحیت (Christianity) کے تین بنیادی عقیدے ہیں— تثلیث (Trinity)، ابنیّت ِ مسیح (Sonship)، کفّارہ (Atonement)۔ مگر یہ تینوں عقیدے نئے عہدنامہ (New Testament) کے اُن چار ابواب میں موجود نہیں ہیں جن کو گاسپل (Gospel) کہاجاتا ہے، حالاں کہ یہی چار ابواب مسیحیت کے مستند ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن عقیدوں کو مسیحی چرچ نے چوتھی صدی عیسوی میں وضع کیا، حضرت مسیح کی اصل تعلیمات سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
انھوں نے کہا کہ گاسپل کے ایک راوی یوحنّا (John) ہیں، اور یوحنّا کے خطوط (Epistles) میں اِبنیّت (Sonship) کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ ان کے بیگ میں بائبل کا ایک نسخہ موجود تھا۔ انھوں نے یہ نسخہ نکالا اور اس کی یہ آیت مجھے دکھائی:
جوکچھ ہم نے دیکھا اور سنا ہے، تمھیں بھی اس کی خبر دیتے ہیں، تاکہ تم بھی ہمارے ساتھ شریک ہو، اور ہماری شرکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ہے:
That which we have seen and heard, we declare to you, that you also may have fellowship with us; and truly our fellowship is with the Father and with His Son Jesus Christ (The First Epistle of John: 3).
میں نے کہا کہ گاسپل (Gospel) اور خطوط (Epistles) میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ گاسپل، نئے عہد نامے کا وہ حصہ ہے جس میں مسیح کے براہِ راست شاگردوں نے مسیح کی زندگی اور ان کی تعلیمات کے بارے میں روایت کیا ہے:
Gospel: The history of the life and teachings of Jesus.
انھوں نے کہا کہ یہ خط بھی اُسی یوحنّا (John) کا ہے جو گاسپل کے چار راویوں میں سے ایک راوی ہیں۔ میں نے کہا کہ گاسپل اور خطوط میں ایک بنیادی فرق ہے، وہ یہ کہ گاسپل میں خود مسیح کی اپنی تعلیمات بیان کی گئی ہیں، مگر خطوط کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو مسیح کے بعد ان کے کچھ متبعین(followers) نے ان کو اپنی طرف سے لکھا۔ ایسی حالت میں خطوط کا درجہ وہ نہیں ہوسکتا جو گاسپل کا درجہ ہے۔
یہ گفتگو کئی لوگوں کی موجودگی میں کافی دیر تک جاری رہی۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ جب ہم بائبل اور چرچ کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں تو خود ہم کو مایوسی ہوتی ہے:
When we see the difference between the Bible and the Church, we are dissappointed.
مجھے اِس طرح کے تجربات بار بار ہوئے ہیں۔ میرا احساس یہ ہے کہ مسیحی لوگ اندر سے کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، لیکن سماجی تقاضے کی بنا پر وہ مسیحیت سے جڑے رہتے ہیں۔
یہ موجودہ مسیحی مذہب کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ اِس اعتبار سے مسلم داعیوں کے لیے مسیحی حضرات کے درمیان دعوت الی اللہ کا بہت اچھا موقع تھا، لیکن مسلم علما کی ایک غلطی کی وجہ سے یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔ وہ غلطی یہ کہ انھوں نے مسیحی حضرات کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے دعوت کا انداز اختیار نہیں کیا، بلکہ مناظرہ (debate) کا انداز اختیار کیا۔
دعوت کے انداز سے مدعو کے دل میں قربت پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں مناظرے کا انداز مدعو کے اندر توحش کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ مناظرے کا انداز مسلمانوں کو خوش کرسکتا ہے، لیکن وہ مدعو کو متاثر نہیں کرتا۔ یہ غلطی نو آبادیاتی دور میں شروع ہوئی تھی، مگر بد قسمتی سے وہ آج تک جاری ہے۔ مناظرہ بازی سے صرف منفی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور دعوت سے مثبت نتیجہ۔