ذہنی سکون کا راز
چارلس ڈیوک (Charles Mass Duke Jr.) ایک امریکی خلاباز (astronaut) ہیں۔ وہ 1935 میں امریکا (North Carolina) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اسپیس سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ 1966 میں ناسا (NASA) کے پانچویں خلاباز گروپ کے لیے منتخب کیے گئے۔ انھوں نے خلا (space) میں کئی پروازیں کیں۔ 1972 میں انھوں نے اپالو (Apollo-16) کے ذریعے چاند کا سفر کیا۔ 16 اپریل 1972 میں وہ چاند کی سطح پر اُترے۔
21فروری 2008کی شام کو ہماری ٹیم کے دو ممبر (رجت ملہوترا، سعدیہ خان) ڈاکٹر چارلس ڈیوک سے نئی دہلی کے اشوکا ہوٹل میں انٹرویو کے لیے ملے۔ ملاقات کے وقت انھوں نے اپنے دست خط کے ساتھ اپنی ایک تصویر دی۔ اِس تصویر میں وہ خلائی سوٹ میں چاند کی سطح پر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر اِس مضمون کے ایک الگ صفحے پر دیکھی جاسکتی ہے۔
ہماری ٹیم کے مذکورہ د ونوں ممبروں نے امریکی خلا باز ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع اسپریچولٹی (spirituality) تھا۔ انٹرویو کے دوران اُن سے ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں، اور آپ کو پُرمسرت زندگی حاصل ہے۔ اِس کے جواب میں انھوں نے اپنے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ— ابتدائی طورپر میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میں نے یہ سمجھا کہ چاند مجھ کو سکون دے گا۔ میں نے یہ سمجھا کہ خلابازی کی زندگی مجھے سکون عطا کرے گی۔ میں خلابازبن گیا، مگر خلابازی کی زندگی نے مجھ کو سکون نہیں دیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اپنا کیریر بدل دوں۔ میں نے ناسا میں ایسٹروناٹ کا جاب چھوڑ دیا اور بزنس شروع کردیا۔ میں نے کافی دولت کمائی، مگر اب بھی میری زندگی میں سکون نہ تھا۔ میں محسوس کرتاہوں کہ اب بھی میری زندگی میں کوئی چیز مفقود ہے:
I had no peace in life. I thought the moon would give me peace. I thought all these goals, all these accomplishments, this great career would give me peace, but it didn’t, So I thought I'll change career. So I left NASA as an astronaut and went into business. Imade a lot of money but I still had no peace in my life. There was still something missing.
New Delhi,
Charlse Duke Jr.
February 21, 2008
یہ معاملہ صرف ڈاکٹر چارلس ڈیوک کا نہیں، یہی موجودہ زمانے میں تمام لوگوں کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں دولت اور شہرت اور اقتدار حاصل کرنے کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ لوگ نہایت تیزی کے ساتھ اِن چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اِن چیزوں کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سپر اچیورس (super achievers) کہاجاتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ تمام سپر اچیور کا کیس سپر ناکامی (super failure) کا کیس تھا۔ سب کچھ پانے کے باوجود اِن لوگوں کو داخلی مسرت حاصل نہیں ہوئی۔ آخر کار وہ مایوسی کا احساس لے کر مر گئے۔
کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانہ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کا زمانہ ہے۔ اِس صورتِ حال نے موجودہ زمانے میں ایک نئی اصطلاح پیدا کی ہے جس کو اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والے (super achievers) کہاجاتا ہے۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ہر بڑی کامیابی آخر میں صرف بڑی ناکامی (super failure)بن گئی۔ اِس قسم کے لوگ نئے قسم کے سنگین مسائل میں مبتلا ہوگئے۔ مثلاً مہلک بیماریاں، وغیرہ۔
اِنھیں نئے مسائل میں سے ایک ٹنشن (tension) یا اسٹریس (stress) ہے۔ لوگوں کے پاس دولت اور شہرت اور اقتدار سب کچھ موجود ہے، لیکن اِن ظاہری کامیابیوں کے باوجود لوگ مسلسل طورپر ٹنشن اور اسٹریس میں مبتلا رہتے ہیں۔ زیادہ دولت صرف زیادہ بیماری کا سبب بن رہی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ رسرچ میڈیکل سائنس میں ہورہی ہے، تاکہ نئی نئی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جاسکے۔اِس صورت ِ حال کے نتیجے میں ایک نیا بزنس شروع ہوگیا ہے جس کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ اِن اداروں میں بڑے بڑے ماہرین، لوگوں کو اسٹریس سے نجات دینے کے لیے سرگرم ہیں۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ لوگوں کا ٹنشن اور اسٹریس بدستور بڑھتا جارہا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا خطرہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نہیں ہے، بلکہ ٹنشن اور اسٹریس کا خطرہ ہے۔
یہ صورت ِ حال ہم کو قرآن کی ایک آیت کی یاد دلاتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد: 28) اِسی بات کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں فرمایا: اللہم لا عیش إلاّ عیش الآخرۃ (صحیح البخاری، کتاب الرّقاق) اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے برتر ہی کو اپنا سپریم کنسرن (supreme concern) بنانے سے انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے اور اپنی پسند کی جو زندگی انسان چاہتا ہے، وہ صرف موت کے بعد کے دورِ حیات میں کسی انسان کو ملے گی۔ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں کسی کو اپنی پسند کی زندگی ملنے والی نہیں۔
اِس معاملے کا براہِ راست تعلق خالق کے کریشن پلان (creation plan of God) سے ہے۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان گاہ (testing ground) کے طور پر بنایا ہے۔ موجودہ دنیا کسی کے لیے بھی اپنی آرزوؤں کی تکمیل کی جگہ نہیں بن سکتی۔ موجودہ دنیا ہر عورت اور مرد کے لیے سفر کا مرحلہ ہے، اور بعد کو آنے والی آخرت کی دنیا اس کی ابدی منزل ہے۔
آپ، بس یا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں اور اس کے اندر آپ گھر والی سہولتیں حاصل کرنا چاہیں، تو آپ اس کو حاصل نہ کرسکیں گے۔ کیوں کہ سواری صرف سواری ہے، وہ گھر کا بدل نہیں۔ اِس طرح موجود دنیا میں خواہشوں کی تکمیل (fulfillment) کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ جو آدمی اپنی خواہشوں کی تکمیل چاہتا ہو، اس کو آخرت کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: لمثل ہٰذا فلیعمل العاملون (الصّافّات:61)۔