سب سے بڑا سوال

انسان بہترین جسم اور اعلیٰ دماغ کے ساتھ اِس دنیا میں آتا ہے۔ اُس کے لیے سوچنے کی سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ کیسے بنا۔ پھر وہ جس دنیا میں آتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا استثنائی طورپر اس کے لیے ایک انتہائی موافق دنیا ہے۔ یہاں وہ ایک ایسی زمین کو پاتا ہے جس پر وہ پُرراحت طورپر رہے۔ یہاں سورج ہے جو مسلسل طورپر اُس کو روشنی اور انرجی دے رہا ہے۔ یہاں زرخیز مٹی ہے جو اُس کے لیے مختلف قسم کی غذائیں اُگاتی ہے۔ یہاں وافر مقدار میں پانی ہے جو زندگی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہاں ہوا ہے جو مسلسل طورپر اس کو آکسیجن سپلا ئی کررہی ہے۔

یہ سیارۂ زمین جس پر انسان آباد ہے، وہ بے شمار طریقوں سے اس کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ یہاں نہایت اعلیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم ہے، جس کے بغیر انسان کے لیے یہاں زندہ رہنا اور ترقی کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اِس دنیا میں اتنی زیادہ نعمتیں ملی ہوئی ہیں جن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ اِن نعمتوں میں سے صرف کچھ نعمتوں کو سائنس نے دریافت کیا ہے۔ یہ دریافت کردہ نعمتیں بھی اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی انسان ساری عمر مطالعہ کرے، تب بھی وہ کامل طورپر اُن سے واقف نہیں ہوسکتا۔

یہ صورت ِ حال اپنے آپ میں ایک سوال ہے، اتنا بڑاسوال کہ کوئی بھی عورت یا مرد اُن کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ انسان کا اپنا حیرت ناک وجود اور آس پاس کی حسین دنیا مجبور کررہی ہے کہ ہر انسان اِن سوالات پر غور کرے اور ان کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرے۔

یہ سوالات گویا ایک خاموش پکار ہیں— مجھ کو کس نے بنایا۔ اِس دنیا کا بنانے والا کون ہے۔ وہ کون ہے جس نے مجھ کو اتنا زیادہ با معنیٰ قسم کا لائف سپورٹ سسٹم پیدا کرکے دے دیاہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ایک عظیم نعمت ہے، اور ہر نعمت زبانِ حال سے پکار رہی ہے اور دعوت دے رہی ہے کہ اِس معاملے پر غور کرو اور دریافت کرو کہ اِن نعمتوں (blessings) کا مُنعم (giver) کون ہے۔

اِسی کے ساتھ ایک اور نہایت سنگین سوال ہے جو اِن سوالات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ انسان انتہائی قیمتی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا دماغ معجزاتی صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے لامحدود ترقی حاصل کرنا چاہتا ہے، بظاہر یہ سب کچھ ابدی معلوم ہوتا ہے، لیکن ابھی وہ اپنے سفرِ حیات کے درمیان میں ہوتا ہے کہ سوسال سے بھی کم عرصے میں کوئی نامعلوم طاقت مداخلت کرتی ہے۔ وہ اُس پر موت وارد کرکے اُس کو موجودہ دنیا سے اٹھا کر کسی اور دنیا میں پہنچا دیتی ہے۔

یہ تمام سوالات نہایت گمبھیر سوالا ت ہیں، وہ لازمی طورپر اپنا ایک جواب چاہتے ہیں۔ کوئی عورت یا مرد جو اپنی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ اِن سوالات کا جواب معلوم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اِن سوالات کا صحیح جواب ہی ہماری موجودہ زندگی کی درست توجیہہ کرتا ہے، اور اِسی کے ساتھ اِن سوالات کا جواب ہی ہم کو یہ بتاتا ہے کہ حقیقی طورپر زندگی کو با معنیٰ اور کامیاب بنانے کے لیے ہمیں کیا کرناچاہیے۔

اِن سوالات پر پوری تاریخ میں غور و فکر کیا جاتا رہا ہے۔ انتہائی بڑے بڑے دماغ اِن سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم طورپر کوشش کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ جس جواب نے عالمی دماغوں کو مطمئن کیا ہے، وہ یہ کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے، وہی اِس کا خالق ہے، وہی اس کا مالک ہے، وہی اس کا انتظام کررہا ہے، وہی اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ اِس پوری دنیا کو سنبھالے ہوئے ہے۔

پھر یہ کہ اِس دنیا کو خدا نے ایک خصوصی تخلیقی پلان (creation plan) کے تحت پیدا کیا ہے۔ اِس پلان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن انسان کو پیداکرنے والے نے اس کی زندگی کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ اس کا بہت تھوڑا حصہ موت سے قبل کے مرحلۂ حیات میں ہے، اور اس کا زیادہ بڑا حصہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں۔ آدمی جب اِس دنیا میں مرتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اگلی دنیا میں داخل ہوجاتاہے، تاکہ وہ اپنی بقیہ زندگی وہاں کے ابدی ماحول میں گزارے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom