سوالات (روزنامہ ہندستان، ممبئی)
۱۔ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جوہوا اور ہور ہا ہے ،عین ممکن ہے کہ فرقہ پرستوں کی اس کامیابی کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اسے دہرایا جائے۔ مسلمان ہنوز منتشر ہیں تو کیا سیاسی، سماجی ، تہذیبی، معاشی گویا ہر سطح پر یہ بات مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے، اگر ہے تو ان حالات میں مسلمان اب کیا کریں۔
۲۔ گجرات یا ملک کے دیگر حصوں میں جب جب او رجہاں بھی فسادات ہوئے اور ہورہے ہیں وہاں پر فرقہ پرستوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کون دیوبندی، بریلوی، یاشیعہ اور اہل حدیث ہے بلکہ بنام ’’مسلم‘‘ سب کی جان و مال کو نقصان پہنچایا اور انہیں معاشی طورپر تباہ و برباد کیا، تو کیا اب بھی مسلکی اختلافات سے چمٹے رہنا مسلمانوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اس کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔
۳۔ آج ملّت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں ملت اسلامیہ کی بقاء کیوں کر ممکن ہے؟
۴۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں سر گنے جاتے ہیں ۔اس بات کو سمجھتے ہوئے بھی ہم مسلکی اختلافات کی بنا پر بوقت الیکشن مختلف الرائے ہو کر اپنی صفوں کو کمزور اور غیروں کی صفوں کو مضبوط بنا دیتے ہیں، تو کیا یہ مفادِ ملّت کے خلاف نہیں ہے، اس سلسلہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔
۵۔ یہودونصاریٰ مسلمانوں اور اسلام کے کٹّر دشمن ہیں، قرآن واحادیث میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مگر ہمارے یہاں سب سے زیادہ اہمیت مسلکی اختلافات اور فرقہ بندی کو دی جاتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت میں تہتر ۷۳ فرقے بننے اور ان میں سے صرف ایک کے جنت میں جانے کی پیشین گوئی ضرور کی ہے مگر باقی دیگر کو اپنی امت کہا ہے، اسلام دشمن نہیں ۔ ایسی صورت میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن کون۔آیا وہ یہود ونصاریٰ جو کہ دنیا میں اسلام کے وجود کو ہی نہیں پسند کرتے یا پھر وہ کلمہ گو جو دیگر مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۶۔ اگر انتشار سے ملت کو نقصان ہو رہا ہے تو اسلام میں اس کا کیا حل ہے۔
۷۔ اللہ اور اس کے رسول نے اجتماعی زندگی کو پسند کیا ہے۔ ملت کو یکجا رکھنے کا کتنا احسن طریقۂ اتحاد ہمیں دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دن میں پانچ بار اور ہفتے میں ایک بار اور پھر عیدین کے موقعوں پر پوری ملت اسلامیہ مسجدوں میں یکجا ہوتی ہے جہاں پر امام کے ذریعے اپنی صفوں کو سیدھا رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اگر علماء کرام اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور اسے اپنا مرکز بنا کر اس اسلامی منشور پر عمل پیرا ہو جائیں تو کسی شور و غل کے بغیر پو ری ملت بقائے باہم کے لیے یکجا ہوسکتی ہے جس کا اثر یہ ہوگا کہ ملک میں فرقہ پرستوں کی ہوا اکھڑ جائے گی اور تب ہم مظلوم نہیں بلکہ بادشاہ گر ہوں گے، مگر ایسا نہیں ہے۔ آخر آپ لوگ مسجدوں سے ملت کو یکجا کرنے کی تلقین کیوں نہیں کرتے۔
۸۔ ہندستان میں ہندوؤں کے بعد مسلمان ہی سب سے بڑی قوم ہیں۔ آپ انہیں بنام مسلم باہم متحد کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل کیوں نہیں بناتے جس سے قوم طاقتور بنے۔ مگر اس کے بجائے آپ لوگ انہیں منتشر کرنے میں پوری طاقت لگاتے ہیں، ایسا کیوں۔
۹۔ عام خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں انتشار کے لئے علماء ذمہ دار ہیں، کیا یہ سچ ہے۔
۱۰۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملی اتحاد کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ذاتی مفادات ہیں۔ آپ کی نظر میں ذاتی مفادات پر ملی مفاد کی کیا اہمیت ہے۔
۱۱۔ آپ کے نزدیک علماء کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کس بات کو دینی چاہئے، مذہبی فرائض کی ادائیگی کو یا پھر محض دنیاوی مفاد کے لئے سیاستدانوں کا آلۂ کار بننے کو۔
۱۲۔ کیا ایک عالم کو سیاست میں حصہ لیناچاہئے۔
۱۳۔ دو مصیبتیں ہیں جس میں سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہے۔ اگر چھوٹی مصیبت کو گلے لگانے سے بڑی مصیبت سے بچا جاسکتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔ آیا منتشر رہ کر ملت کو بھیڑیوں کا چارہ بننے دیں یا پھر دیگر مکتب فکر کے ساتھ متحد ہو کر اس بڑی مصیبت کا مقابلہ کریں۔
۱۴۔ خلفائے راشدین کو مذہب اسلام میں بنیاد یا ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا ان کا بھی کوئی مسلک تھا۔ صحابۂ کرام کس مسلک سے وابستہ تھے۔ اگر وہ صرف اور صرف اسلامی قالب میں ڈھلے تھے تو پھر مسالک کو بنیادی حیثیت کیوں دی گئی۔کیا مسلمان صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کے دور کا مسلمان رہ کر صحیح اور سچا مسلمان نہیں کہلا سکتا ہے(صلاح الدین جوہر انصاری)
جوابات
۱۔ اس معاملہ میں کیا کریں ،کا جواب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہندستانی مسلمان اپنا الگ سیاسی محاذ بنائیں۔ وہ ملی اتحاد کے مظاہرے کریں۔ وہ احتجاج اور مطالبہ کی مہم چلائیں۔ وہ اپنی مظلومیت اور دوسروں کے ظلم کا اعلان کریں۔ وہ تقریر اور تحریر کے ہنگامے جاری کریں۔ اس قسم کی تدبیریں پچھلے ۵۵ سال کے عرصہ میں بہت بڑے پیمانہ پر عمل میں لائی گئی ہیں اور وہ مکمل طورپر بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔
اب مسلمانوں کے لیے کرنے کا صرف ایک ہی کام باقی ہے جس کا ابھی تک عملی تجربہ نہیں کیا گیا، اور وہ دعوت ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کاحل ہمیشہ دعوت کے ذریعہ ہوا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ، عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میں چھپا ہوا ہے (المائدہ ۶۷) اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت مسلمانوں کے مسائل کا یقینیحل ہے۔ دعوت اپنے اندر تسخیری طاقت رکھتی ہے۔مگر دعوتی عمل کو انجام دینے کی ایک لازمی شرط ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں ، بالفاظِ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان، نفرت او رکشیدگی کو یک طرفہ اعراض کے ذریعہ مکمل طورپر ختم کر دیا جائے۔ تاکہ دونوں کے درمیان دعوت کا ماحول قائم ہو۔شکایت و احتجاج کی بات کرنا اور اسی کے ساتھ دعوت کا نام لینا ایک مسخرہ پن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل۔
۲۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث ،وغیرہ کے درمیان موجودہ قسم کے مسلکی اختلافات ہر حال میں غلط ہیں۔ فسادات ہوں یا نہ ہوں، انہیں بہر حال ختم ہونا چاہئے۔ جن چھوٹے چھوٹے اختلافات پر یہ گروہ بندیاں کی گئی ہیں وہ دور اول میں بھی موجود تھے لیکن وہ گروہ بندی کا سبب نہیں بنے۔ ان انتہا پسندانہ اختلافات کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) ہے۔ یعنی اساسی باتوں پر زور دینے کے بجائے جزئی باتوں پر زور دینا۔ اس برائی کو ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔
۳۔ میرے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں کہ آج ملت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے۔ ملت اسلامیہ کو خدا کا تحفظ حاصل ہے اور قیامت تک وہ بہر حال محفوظ رہے گی۔ میرے نزدیک جس چیز کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے وہ ملت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ وہ طریقِ کار ہے جو موجودہ زمانہ میں کچھ خود ساختہ لیڈروں کی رہنمائی میں اختیارکیا گیا۔ اور وہ پُر تشدد طریقِ کار ہے۔ میرے نزدیک تقریباً دوسوسال سے مسلمان جہاد کے نام پر پُر تشدد طریقِ کار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ طریقِ کار اب آخری طور پر ناکام ثابت ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ اب وہ پوری طرح پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرلیں۔ پُر تشدد طریقِ کار کو وہ مکمل طورپر چھوڑ دیں، براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی، لفظی بھی اور عملی بھی۔
۴۔ میرے نزدیک الیکشن میں علیٰحدہ سیاسی محاذ آرائی مسلمانوں کے لئے تباہ کن ہے۔ اس قسم کی جداگانہ سیاست کو اُنہیں مکمل طورپر چھوڑ دینا چاہئے۔ میرے نزدیک جداگانہ تشخص کا تعلق مذہب سے ہے۔ جہاں تک الیکشنی سیاست کا تعلق ہے، اُس کو قومی ہونا چاہئے، مسلمانوں کے لیے بھی اور دوسرے فرقوں کے لیے بھی۔
۵۔ یہ بات اُصولاً غلط ہے کہ یہودونصاریٰ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ قرآن وحدیث میں جن یہودونصاریٰ کا ذکر ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر یہود ونصاریٰ ہیں، نہ کہ ہر زمانہ کے یہود ونصاریٰ۔میرے نزدیک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن خود وہ مسلمان ہیں جو دوسری قوموں کو اسلام دشمن بتا کر مسلمانوں کے دلوں میں اُن کے خلاف نفرت پیدا کرتے ہیں۔ اسلام کا طریقہ، اسلام دشمنوں کی نشاندہی کرنا نہیں ہے بلکہ دشمنوں کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کرکے اُنہیں اپنا دوست بنانا ہے۔ (فصلت ۳۴)
۶۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں جو تفریق اور انتشار پایا جاتا ہے، اُس کا سبب میرے نزدیک صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے، اختلاف اور تنقید پر غیر ضروری حسّاسیت۔ اس مسئلہ کا حل اختلاف اور تنقید کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ اختلاف اور تنقید کے بارے میں اپنی غیر فطری حساسیت کو ختم کرنا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو برداشت کرنے سے ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانے سے۔ کیوں کہ اختلافات کا مٹنا سرے سے ممکن ہی نہیں ۔
۷۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام کی ظاہری صورت یا فارم والا اسلام تو موجود ہے مگر اسلام کی روح ان کے اندر موجود نہیں ۔ وہ بہت بڑے پیمانہ پر اور لاکھوں مسجدوں میں ہر دن نماز کی ظاہری شکل کو دہراتے ہیں مگر نماز کی اصل روح جو اتحاد ہے، وہ ان کے اندر موجود نہیں ۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اسلام کی اصل اسپرٹ کو زندہ کیا جائے جو خَوفِ خدا اور فکر آخرت پر ہوتی ہے۔ روح کے بغیر شکل اسی طرح بے قیمت ہے جس طرح پھل کے مغز کے بغیر اس کا چھلکا۔
۸۔ جہاں تک راقم الحروف کا تعلق ہے، میں مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش ہی میں لگا ہوا ہوں۔ میرے نزدیک مسلم اتحاد جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اس طرح قائم ہوسکتا ہے کہ دلوں اور دماغوں میں روحِ اتحاد کو زندہ کیا جائے۔ اور میں یہی کام کررہا ہوں۔
۹۔ میرے نزدیک مسلمانوں کے انتشار کا سبب یہ ہے کہ اُن کے دلوں سے اللہ کا خوف نکل گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا مقصد، دوسری قوموں کی طرح، صرف مال کمانا اور مادّی ترقی حاصل کرنا بن گیا ہے۔ یہ مزاج ہمیشہ حسد اور نفسانیت کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔ اور یہی موجودہ مسلمانوں میں بڑے پیمانہ پر پیدا ہوگیا ہے۔ اس معاملہ میں علماء اور غیر علماء کی کوئی تفریق نہیں ۔
۱۰۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا گہرا جائزہ بتاتا ہے کہ اُن کے اندر اجتماعی شعور موجود نہیں ۔ وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل میں اتنا زیادہ گم ہیں کہ اجتماعی مقاصد کی اہمیت کی اُنہیں خبر ہی نہیں ۔ مسلمانوں کی اس کمزوری کی اصلاح تعلیم اور شعوری بیداری کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے۔
۱۱۔ موجودہ زمانہ کے علماء دو بڑی کمزوریوں کا شکار ہیں۔ ایک تقلید، جس نے اُنہیں ذہنی جمود میں مبتلا کردیا ہے۔ اُن کی دوسری کمزوری یہ ہے کہ وہ عصری تعلیم سے دور ہونے کی بنا پر زمانہ کے جدید حالات سے بالکل بے خبر ہیں۔ علماء کی ان دو کمزوریوں نے انہیں اس قابل ہی نہیں رکھا ہے کہ وہ جدید مسلم نسلوں کی کامیاب رہنمائی کر سکیں۔
۱۲۔ سیاست میں حصہ لینا کوئی غلط یا غیر شرعی بات نہیں ۔ مگر موجودہ زمانہ کے علماء اپنی فکری اور علمی پس ماندگی کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ وہ سیاست میں کوئی مفید کردار ادا کرسکیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانہ کے علماء نے بڑے پیمانہ پر سیاست میں عملاًحصہ لیا ہے۔ مگروہ اپنے اس سیاسی عمل سے مسلمانوں کو تباہی کے سوا کچھ اور نہ دے سکے۔
۱۳۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ غلط ہے کہ ملت بھیڑیوں کا چارہ بن رہی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ملّت خود اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کررہی ہے۔ جہاں تک اہون البلیتین کا تعلق ہے، وہ ایک مسلّمہ شرعی اصول ہے۔ حدیث میں اس کو اختیار اَعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کہا گیا ہے (صحیح البخاری)۔ حسب ضرورت اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ۔
۱۴۔ فقہی مسالک کوئی دور جدید کی چیز نہیں ۔ وہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں موجود تھے۔ جو فرق ہے وہ یہ کہ صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں فقہی فروق کی بنیاد پر گروہی مسالک نہیں بنے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں اس قسم کے فروق کو لے کر انتہا پسندانہ گروہی مسالک بنا دیے گئے ہیں۔ اس معاملہ کو میں نے اپنی کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اسلامی شریعت کے دوبڑے حصّے ہیں۔ ایک بنیادی احکام کا حصہ اور دوسرے ضمنی اور فروعی احکام کا حصہ ۔ بنیادی احکام سب کے سب یکساں ہیں، اُن میں کوئی فرق واختلاف نہیں ۔ مگر ضمنی اور فروعی احکام میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ دونوں قسم کے احکام کے درمیان یہ فرق عین فطری ہے اور وہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ فروعی اختلافات کو توسع اور تنوع (diversity) پر محمول کیا جائے۔ اُن کے معاملہ میں رواداری کا انداز اختیار کیا جائے، نہ کہ شدت پسندی کا انداز۔