مسلم پالیسی کو بدلنے کی ضرورت
اپریل ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتہ میں مکہ میں رابطہ عالم اسلامی کی چوتھی عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے مسلم علماء اور دانشور تقریباً پانچ سو کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع ’’اسلام اور گلوبلائزیشن ‘‘ بتایا گیا۔ اس کانفرنس کی ایک رپورٹ لاہور کے ماہنامہ محدث (مئی ۲۰۰۲) میں دیکھی۔ اس کا ایک حصہ یہاںکسی قدر تصرف کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے :
بوسنیا کے رئیس العلماء مصطفی سیرچ نے سابق صدر بوسنیا عزت بیگووچ کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہم بوسنیا کے تلخ تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا مناسب سمجھتے ہیں کہ عربوں کو اسرائیل سے صلح وآشتی کا راستہ اختیار کر لینا چاہئے ۔ دکتور یوسف القرضاوی فوراً مائیک پر آئے اور نہایت شدید الفاظ میں عزت بیگوچ کے اس نظریہ کی تردید کی۔ رپورٹ کے مطابق، بظاہر پوری کانفرنس میں کوئی شخص بھی عزت بیگوچ کی حمایت میں بولنے کے لیے کھڑا نہیں ہوا (صفحہ ۵۴)۔
جس زمانہ میں عزت بیگووچ نے بوسنیا کے آزاد مسلم مملکت ہونے کا اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میں وہاں خونی جنگ چھڑ گئی، اُس وقت ساری مسلم دنیا میں عزت بیگووچ ہیرو بن گئے۔ مگر آج یہی عزت بیگووچ جب امن اور صلح کی بات کرتے ہیں تو اب وہ مسلمانوں کے یہاں زیرو بنے ہوئے ہیں۔ اس واقعہ پر غور کیجئے تو کچھ سبق آموز باتیں سامنے آئیں گی۔
۱۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان محصور ذہنیت (beseaged mentality) میں جی رہے ہیں۔ اُن کے نااہل دانشوروں اور لیڈروں نے اُنہیں یہ بتا رکھا ہے کہ وہ مظلوم ہیں اور دشمنوں کی سازش کا شکار ہورہے ہیں۔ جولوگ ایسی نفسیات میں مبتلا ہوں اُن کا حال یہ ہوگا کہ وہ لڑائی کی زبان تو سمجھیں گے مگر وہ صُلح کی زبان سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
۲۔ مسٹر عزت بیگووچ نے جو پیغام بھیجا وہ ایک ادھورا پیغام تھا۔ اس بنا پر وہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا۔ عزت بیگووچ کا پیغام اپنی موجودہ شکل میں صرف مجبوری کے ہم معنیٰ ہے۔ اور کوئی بھی مسلمان مجبوری کے تحت کسی پالیسی کو اختیار کرنے پر راضی نہیں ہوگا۔ عزت بیگووچ کو چاہیے کہ وہ مسلح اقدام کے بجائے پُر امن اقدام کا طریقہ دریافت کریں۔ اس کے بعد لوگوں کے لیے اُن کا پیغام قابل فہم اور قابلِ قبول بن جائے گا۔
۳۔ مکہ کی مذکورہ کانفرنس کی روداد کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بولنے والے تمام مسلمان صرف شکایت اور احتجاج کی بولی بولتے رہے، وہ مسائل پر تقریریں کرتے رہے۔ یہی موجودہ زمانہ میں تمام مسلم کانفرنسوں کا حال ہے۔ ہر کانفرنس میں صرف مسائل کا پُر شور تذکرہ ہوتا ہے۔ علماء اور دانشوروں کے اس مزاج نے موجودہ زمانہ کی تمام مسلم کانفرنسوں کو سراسر بے نتیجہ بنا دیا ہے۔ کانفرنس کا مقصد مواقع کار کی مثبت نشاندہی ہونا چاہئے، نہ کہ مسائل کے نام پر منفی چیخ وپکار، قرآن کے الفاظ میں ، عُسر میں یُسر کی نشان دہی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کے تیرہویں سال مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت آپ مسائل کے جنگل سے گذر کر وہاں پہنچے تھے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے وہاں کے لوگوں کے سامنے جو پہلا خطبہ دیا وہ ابن ہشام نے اس عنوان کے ساتھ نقل کیا ہے:
أول خطبۃ خطبہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المدینۃ (رسول اللہﷺ کا پہلا خطبہ جو آپ نے مدینہ میں دیا)۔
یہ پورا خطبہ سیرت ابن ہشام میں آج بھی موجود ہے۔ اُس کو پڑھیے تو اُس میں ایک لفظ بھی شکایت اور احتجاج کا نہیں ملے گا۔ اس پورے خطبہ کا خلاصہ اُن کے اس جملہ میں ہے: اتقوا النار و لو بشق تمرۃ (اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ کیوں نہ ہو)۔
عجیب بات ہے کہ اسی رسول کے امتی آج رسول کی سنت کے برعکس شکایت اور احتجاج کی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ حتیٰ کہ مکہ اور مدینہ میں بھی یہی خلاف سنت کام نہایت دھوم کے ساتھ جاری ہے۔ کوئی اللہ کا بندہ اگر اُنہیں اس روش کو ترک کرنے کی نصیحت کرے تو وہ اُس کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی خلافِ سنت سرگرمیاں بلاشبہہ خدا کے غضبکو دعوت دینے والی ہیں، خواہ یہ سرگرمیاں مقدس مقامات پر کیوں نہ کی جارہی ہوں۔
اصل یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کا ظلم نہیں ہے بلکہ وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کا انتباہ ہے۔ یہ سب مسلمانوں کو چوکنّا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے فلاح کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ توبہ کریں۔ وہ تشدد کا راستہ مکمل طورپر چھوڑیں اور امن کا راستہ مکمل طورپر اختیار کرلیں۔ اسلام یا اہل اسلام کے نام پر وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس کو امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ اس کے سوا اُن کے لیے فلاح اور کامیابی کی کوئی صورت نہیں ۔