چند اسلامی مسائل

موجودہ زمانہ میں ایک برائی ظاہر ہوئی ہے جس کو دہشت گردی (terrorism) کہا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو عام طورپر کنڈم کیا جاتا ہے مگر دہشت گردی کیا ہے، اس کی کوئی واضح تعریف غالباً ابھی تک سامنے نہ آسکی۔ قرآن وحدیث کے مطالعہ سے میں نے سمجھا ہے کہ دہشت گردی نام ہے، غیرحکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا(armed action by NGOs) ۔

اسلام کے متفقہ اصول کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت کا کام ہے(الرحیل للإمام) وہ چیز جس کو موجودہ زمانہ میں  دہشت گردی کہا جاتا ہے، وہ سب کی سب غیرحکومتی تنظیموں کے مسلّح اقدام کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔اس قسم کی مسلّح تحریک بلا شبہہ اسلام میں  ناجائز ہے۔ عوام کو پُر امن انداز میں  اپنی بات کہنے کا حق ہے مگر کسی بھی عذر کی بنا پر مسلّح تحریک چلانا عوام کے لئے ہر گز جائز نہیں ۔

مزید یہ کہ ایک قائم شدہ حکومت کے لیے بھی جنگی اقدام کی کئی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً ایک قائم شدہ حکومت بھی صرف دفاعی جنگ کر سکتی ہے، جارحانہ جنگ چھیڑنے کاحق حکومت کوبھی نہیں ۔ اسی طرح ایک جائزجنگ بھی اعلان کے ساتھ لڑی جائے گی، بلا اعلان جنگ (undeclered war) کی کوئی گنجائش اسلام میں  نہیں ۔ اسی طرح ایک جائز دفاعی جنگ میں بھی حکومت صرف مقاتل (combatants) پر وار کرسکتی ہے، غیر مقاتل (non-combatants) کو مارنا یا اُن کو نقصان پہنچانا جنگ کی حالت میں  بھی ہر گز جائز نہیں ۔

ان حقیقتوںکو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں  جنگ کی صرف ایک قسم کا جواز ہے، اور وہ دفاعی جنگ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی جنگ، مثلاً ــــجارحانہ وار، پراکسی وار، گوریلا وار اور پھر بلا اعلان وار، یہ سب کی سب اسلام میں  قطعی ناجائز ہیں۔ کسی بھی عذر کی بناپر اس قسم کی جنگوں کو اسلامی جنگ قرار نہیں  دیا جاسکتا۔

مذکورہ تعریف کے مطابق، دہشت گردی کی ہر تحریک یقینی طورپر ناجائز ہے، ایسی کسی تحریک کو اسلامی جہاد کا نام دینا اُس کو جائز نہیں  بناتا۔ ایسی ہر کوشش گُناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے، وہ یقینی طورپر ایسی کسی جنگ کا اسلامی جواز نہیں ۔

کھُلی مذمت ضروری

قرآن و حدیث میں  اہل ایمان کو جو احکام دیے گئے ہیں اُن میں  سے ایک حکم وہ ہے جس کو انکار منکر کہا جاتا ہے۔ یعنی برائی کو دیکھنے کے بعد کھلے الفاظ میں اُس کی مذمت کرنا۔ اس سلسلہ میں  بتایا گیا ہے کہ کسی سماج میں  اگر بُرائی ہورہی ہو تو اُس کو دیکھ کر چپ رہنا ایک سنگین جرم ہے۔ کسی آدمی کے لیے صرف یہ کافی نہیں  کہ وہ براہِ راست طورپر بُرائی میں  شریک نہیں ۔ اگر وہ برائی کو دیکھنے کے باوجود چپ رہے تو وہ بالواسطہ طورپر اُس کا مجرم قرار پائے گا۔

مثلاً موجودہ زمانہ میں  مسلمان جگہ جگہ جہاد کے نام پر وہ کام کر رہے ہیں جس کو ساری دنیا کا پریس دہشت گردی کے عنوان سے رپورٹ کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس معاملہ میں  دنیا کے تقریباً تمام مسلمان خدا کی نظر میں مجرم ثابت ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق، ساری دنیا میں کوئی بھی قابل ذکر مسلمان نہیں  جو تشدد کی اس برائی کو کھلے طورپر کنڈم کرتا ہو۔

مسلمانوں کی ایک تعداد وہ ہے جو اس متشددانہ سرگرمی کو عین اسلامی جہاد قرار دیتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ خود کُش بمباری (suicide bombing) کو استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اُس کو عین درست بتاتی ہے۔ مسلمانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو مذمت کے الفاظ بولتا ہے مگر حقیقت میں  وہ مذمت نہیں  ہوتی۔ مثلاً وہ کہیں گے کہ اسلام میں  دہشت گردی نہیں ، اسلام دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر وہ یہ نہیں  کہیں گے کہ فلاں فلاں مقام پر مسلمان جو متشددانہ تحریک چلا رہے ہیں وہ دہشت گردی ہے اور وہ اسلام کے خلاف ہے۔ ایسی حالت میں  اُن کی مذمت ایک خود فریبی کے سوا اور کچھ نہیں ۔مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جو بظاہر نام لے کر مذمت کرتاہے مگراسی کے ساتھ وہ ایسے دفاعی الفاظ بھی بولتاہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اس دہشت گردی کی اصل ذمہ داری مسلم دشمنوں کی ہے، نہ کہ خود مسلمانوں کی۔

مذمت کے یہ طریقے یقینی طورپر غیر اسلامی ہیں۔ مذمت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کو خلاف اسلام بتایا جائے بلکہ مختلف مقامات پر جہاد کے نام پر جو دہشت گردی ہو رہی ہے اُس کو کھلے لفظوں میں  رد کیا جائے اور کہا جائے کہ یہ جہاد نہیں  ہے بلکہ فساد ہے۔

مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقہ کی یہی مجرمانہ خاموشی ہے جس کی بنا پر یہ ہورہا ہے کہ جہاد کے نام پر ہونے والا تشدد کسی طرح ختم نہیں  ہوتا۔ اس مجرمانہ تشدد میں  خود ساختہ مجاہدین اگر براہ راست شریک ہیں تو بقیہ مسلمان بالواسطہ طورپر اس میں شریک ہیں۔ اور اسلامی نقطۂ نظر سے، براہ راست شرکت اور بالواسطہ شرکت کے درمیان صرف ڈگری کا فرق ہے، اُن کے درمیان نوعیت کا کوئی فرق نہیں ۔

ناکامی کا کیس

امن کی طاقت تشدد کی طاقت سے زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ امن دانش مندو ں کا طریقہ ہے اور تشدد نادانوں کا طریقہ۔ ایسی حالت میں  جب کوئی شخص تشدد کرتاہے تووہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے زیادہ طاقتور طریقہ استعمال کرنے میں  ناکام رہا۔ اسی طرح ایسا آدمی اپنے متشددانہ عمل سے یہ بھی ثابت کررہا ہے کہ وہ اپنے مسئلہ کو حل کرنے کے معاملہ میں ایک نادان آدمی ثابت ہوا، نہ کہ دانش مند آدمی۔

امن اورتشدد سادہ طورپر صرف دو طریقے نہیں  ہیں۔ بلکہ وہ انسانیت کے دو مختلف معیار ہیں۔ امن کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنی انسانیت کو بلند کرتا ہے اور تشدد کا طریقہ اختیار کرنے والا آدمی اپنے آپ کو انسانیت کے اعلیٰ معیار سے نیچے گرا لیتاہے۔
کوئی مسئلہ پیش آنے کے بعد جب ایک آدمی امن کا طریقہ اختیار کرتاہے تووہ اپنے اندر مثبت سوچ کو فروغ دیتا ہے۔ وہ اپنے اخلاقی معیار کوبلند کرتاہے۔ وہ اپنی شخصیت کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر ثابت شدہ بناتا ہے۔ اس کے برعکس جب ایک آدمی اپنے مسئلہ کے حل کے لیے تشدد کا طریقہ اختیار کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو انسانیت کے نچلے درجہ کی طرف لے جاتاہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی حیثیت کو عملی طورپر مشتبہ بنا رہا ہے۔

امن اور تشدد دونوں کسی انسان کی اصل حیثیت کی پہچان ہیں۔ ایک طریقہ اگر انسان کو انسان ثابت کرتاہے تو دوسرا طریقہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک حیوان تھا، اگر چہ ظاہری طورپر وہ ایک انسان دکھائی دے رہا تھا۔

مذہب خطرہ میں ہے

نفرت اور تشدد کا ایک سبب وہ جذباتی سیاست ہے جو اس نعرہ پر چلتی ہے کہ مذہب خطرہ میں ہے۔ کچھ لکھنے اور بولنے والے لوگ غلط یا مبالغہ آمیز تصویر پیش کرکے عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُن کا مذہب دوسروں کی طرف سے خطرہ میں  ہے۔ اب تحفظ مذہب کے نام پر جلسہ اور جلوس اورنعرے اور جھنڈے کی سیاست چل پڑتی ہے۔ یہ سیاست مذہب کو تو خطرہ سے نہیں  بچاتی البتہ مذہب کو خطرہ سے بچانے کے نام پر پورے سماج کے امن کو تباہ کرکے اُس کو خطرہ میں  ڈال دیتی ہے۔

اگر مذہب خطرہ میں  ہو تو ظاہر ہے کہ کوئی غیر ہوگا جو مذہب کو خطرہ میں  ڈالے ہوئے ہوگا۔ اس طرح ’’مذہب خطرہ میں ‘‘ جیسی سیاست ایک گروہ کے دل میں  دوسرے گروہ کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے۔ پھر نفرت کی سیاست سے جب مذہب کے خلاف مفروضہ خطرہ ختم نہیں  ہوتا تو اس کے بعد لوگوں کے اندر مایوسی کی سیاست شروع ہوتی ہے۔ مایوسی کی سیاست اپنی آخری تدبیر کے طورپر تشدد کی سیاست جاری کردیتی ہے۔ پھر جب تشدد کی سیاست کار گر ثابت نہیں  ہوتی تو خود کُشی کی سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ جوش میں  بھرے ہوئے نوجوان اپنی بڑھی ہوئی نفرت کو اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف خود کش بمباری کی صورت میں  انڈیل دیتے ہیں۔ مذہبی خطرہ کی سیاست اپنی آخری حد پر پہنچ کر مذہبی خود کُشی کی سیاست بن جاتی ہے۔ زندگی کے نام پر اُٹھنے والے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے صرف موت کا پیغام ثابت ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تباہ کن سیاست سے نکلنے کا واحد حل یہ ہے کہ تشدد کو ایک ایسا فعل قرار دیا جائے جو ہر حال میں  قابل ترک ہو۔ کوئی بھی عذر، خواہ وہ بظاہر کتنا ہی بڑا ہو، تشدد کے طریقہ کو استعمال کرنے کے لیے کافی نہ سمجھا جائے۔

موجودہ دنیا اختلافات کی دنیا ہے۔ یہاں ہر آدمی مسٹر ڈفرنٹ اور ہر عورت مِزڈ فرنٹ ہے۔ اس لیے اس دنیا میں  لازمی طورپر لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلافا ت پیدا ہوتے ہیں۔ یہی اختلاف جذباتی صورت اختیار کرکے لوگوں کو نفرت اورتشدد تک پہنچاتا ہے۔ اور پھر سارا سماج قبرستان کا نمونہ بن جاتا ہے۔

اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے۔ اور وہ یہ کہ لوگوں کے اندر یہ ذہن بنایا جائے کہ تم کوہر حال میں  امن کے دائرہ میں کام کرنا ہے۔ کسی بھی حال میں  تم کو امن کے دائرہ سے باہر نہیں جانا ہے۔ یہ ذہن اُس وقت بن سکتا ہے جب کہ لوگوں کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے کہ اس دنیا میں  کوئی کام صرف امن کے ذریعہ بنتاہے، تشدد کے ذریعہ کبھی کوئی کام بننے والا نہیں ۔ تشدد صرف تخریب میں معاون ہوتا ہے، تشدد کبھی تعمیر میں  معاون نہیں  ہوتا۔

’’مذہب خطرہ میں ‘‘ جیسی سیاست کے ذریعہ کا یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ کچھ ہائی پروفائل میں  بولنے والے لوگ قائد بن کر اُبھرآئیں۔ وہ وقتی طور پر لوگوں میں  نمایاں ہوجائیں۔ اُن کے گرد عوام کی بھیڑ اکٹھا ہو۔ مادّی رونقیں اُنہیں  حاصل ہوجائیں۔ مگر جہاں تک مذہب اوراہلِ مذہب کا تعلق ہے، اُن کے حصہ میں  صرف یہ آتا ہے کہ معتدل ماحول سے محروم ہوکر وہ نفرت کے ماحول میں  جینے پر مجبور ہوجائیں۔ تشدد کا شکار ہو کر وہ اپنے مستقبل کو غیر محفوظ بنالیں۔

مذکورہ قسم کی سیاست کا آخری نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ کچھ افراد ممتاز افراد (celebreties) بن کر نمایاں ہوجائیں۔ مگر یہ طریقہ مثبت معنوں میں  قوم کی تعمیر نہیں  کرتا اور نہ کرسکتاہے ۔ یہ طریقہ لیڈر سازی کے لیے کارآمد ہے، مگروہ ملت سازی کے لیے ہر گز کار آمد نہیں ۔

انتقام سے تشدد تک

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو دوسرے شخص سے کوئی تکلیف پہنچ جائے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طرف سے کوئی ٹھیس پہنچے تو فوراً اُن کے اندر انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ فریقِ ثانی سے انتقام لینے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کی اس وارننگ کو بھول جاتے ہیں جو ہر جگہ خاموش الفاظ میں گونج رہی ہیــــــانتقام لینے سے پہلے سوچ لو کہ انتقام کا بھی انتقام لیا جائے گا۔

چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف انتقام کی کارروائی کرتاہے۔ پھر دوسرا فریق دوبارہ پہلے فریق سے انتقام لیتا ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جو صرف اُس وقت ختم ہوتا ہے جب کہ دونوں اتنے تباہ ہوجائیں کہ وہ مزید انتقام لینے کے قابل نہ رہیں۔کسی فرد یا گروہ کے خلاف کوئی قابل شکایت بات پیش آئے تو اُس کا حل جوابی کارروائی نہیں ہے بلکہ اُس کو درگذر کرکے آگے بڑھ جانا ہے۔ درگذر کرنے سے معاملہ پہلے ہی مرحلہ میں  ختم ہوجاتا ہے۔ اوراگر درگذر نہ کیا جائے تو نفرت اورانتقام اورتشدد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتاہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

انتقام کا رُخ دوسرے کے خلاف ہوتا ہے مگر اس کا سب سے زیادہ شکار خود انتقام لینے والا بنتا ہے۔ انتقامی پالیسی کی بھاری قیمت اُس کو یہ دینی پڑتی ہے کہ اُس کادماغ منفی سوچ کا کارخانہ بن جائے۔ وہ اپنے وسائل کواپنی تعمیر میں  صرف کرنے کے بجائے اُنہیں  صرف دوسرے کی تخریب میں صرف کرنے لگے۔ دوسرے فریق نے اگر آپ کو پچاس فی صدنقصان پہنچایا تھا تو آپ اپنی انتقامی کارروائی کے نتیجہ میں  اپنی بقیہ پچاس فی صد طاقت کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔

انتقام کا مطلب یہ ہے کہ قاتلانہ حملہ کے بعد کوئی شخص خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقام ہر حال میں  بُرا ہے اور انتقام نہ لیتے ہوئے معاملہ کو بھُلا دینا ہر حال میں  اچھا ہے۔ انتقام لینے والا اگر آپ کا دشمن تھاتو انتقام لے کر آپ خود اپنے دشمن بن جاتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے دشمن آپ بن جائیں اُن کو تباہی سے کون بچا سکتاہے۔

جنگ کا زمانہ ختم

وسیع تر تقسیم میں  جنگ کے دو دور ہیں۔ ایک وہ ابتدائی دور جب کہ جنگی مقابلہ کا فیصلہ تلوار کے ذریعہ ہوتا تھا۔ دوسرا دور جدید دور ہے جب کہ لڑائی میں  بم کی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں دوروں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ تلوار جب چلائی جاتی تھی تو وہ صرف ایک دشمن کی گردن کو کاٹتی تھی۔ اب بم کے زمانہ میں  جنگ کا مطلب یہ نہیں ۔ اب جنگ کا مطلب صرف تباہی ہے۔ جو بم دشمن کے اوپر ڈالا جاتا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے خود ڈالنے والے کے لیے بھی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ایسی حالت میں  جنگ ایک بے فائدہ عمل بن چکی ہے۔ اب جنگ ایک دیوانگی ہے، نہ کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اقدام۔

حقیقت یہ ہے کہ نئے ہتھیاروں کے ظہور کے بعد جنگ اب ایک قابلِ ترک چیز بن چکی ہے۔ جب جنگ مثبت معنوں میں  بے نتیجہ ہو جائے تو ایسی حالت میں  جنگ چھیڑنا ایک دیوانگی ہے، نہ کہ عقل مندی۔

زمانہ کے خلاف

موجودہ زمانہ گلوبلائیزیشن (globlisation) کا زمانہ ہے۔ ساری دنیا ایک گلوبل ویلیج کی مانند ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے توموجودہ زمانہ میں تشدد یا مسلّح جدوجہد ایک ایسی چیز بن چکی ہے جو زمانہ کے خلاف عمل (anachronism) کی حیثیت رکھتی ہے۔

موجودہ زمانہ میں جو لوگ ہتھیار کی لڑائی لڑ رہے ہیں اُن سے پوچھئے کہ وہ کیوں جنگ کررہے ہیں تو وہ بتائیں گے کہ قائم شدہ حکومت کو بدلنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک نیا نظام بنانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ بات صرف زمانہ سے بے خبری کانتیجہ ہے۔

موجودہ زمانہ میں  ایسی تبدیلیاں ہوچکی ہیں کہ اب کسی کو حکومت پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر ہر وہ کام کرسکتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

برداشت کی ضرورت

عدم برداشت کا نتیجہ تشدد ہے، اوربرداشت کا نتیجہ امن۔ انہی دو لفظوں میں  امن اور تشدد کا خلاصہ پایا جاتا ہے۔ جس سماج میں برداشت کی صفت ہو، اس سماج میں  امن کا ماحول رہے گا۔ اور جس سماج کے لوگوں میں  برداشت کا مزاج نہ ہو وہاں تشدد ہونے لگے گا۔ اور تشدد نہ تشدد کرنے والے کے لیے مفید ہے اور نہ اُن لوگوں کے لیے مفید جن کے اوپر تشدد کیا گیا ہے۔

برداشت ایک اعلیٰ اخلاقی اورانسانی صفت ہے۔ اس کے مقابلہ میں برداشت نہ کرنا ایک حیوانی صفت ہے۔ برداشت مجبوری نہیں ، برداشت ایک اعلیٰ ترین عمل ہے۔ لوگ جس مقصد کو بے برداشت طورپر حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس کو برداشت کے ذریعہ زیادہ بہتر طورپر حاصل کیا جاسکتاہے۔ کوئی ناخوش گوار صورت حال پیش آنے پر آدمی جب بے برداشت ہوجائے تو وہ اپنے آپ کومقابلہ کے لیے کمزور کر لے گا۔ لیکن جب وہ ناخوش گوار صورت حال میں برداشت کے رویّہ پر قائم رہے تو وہ اپنی ساری طاقتوں کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ زیادہ مؤثر طورپر پیش آمدہ صورت حال کا مقابلہ کرسکتاہے۔

ناخوش گوار صورت حال پیش آنے کے باوجود بے برداشت نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کی طاقت رکھتاہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ طاقت ہوکہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرسکے، وہ اتنا زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے کہ کسی کے لیے بھی اُس کو شکست دینا ممکن نہیں ۔

امن کے فائدے

دنیا کے تمام اچھے کام پر امن کوشش کے ذریعہ ہوئے ہیں۔ تشدد کی طاقت سے کبھی کوئی اچھا کام نہیں  ہوا۔ کوئی پُل، کوئی سڑک کبھی بھی تشدد کی طاقت سے نہیں بنے۔ سائنس کی دریافتیں اور ٹکنالوجی کی ترقیاں کبھی تشدد کی طاقت سے ظہور میں  نہیں  آئیں۔ تعلیم گاہیں اور تحقیق کے ادارے کبھی تشدد کی طاقت سے نہیں  بنے۔ لوہے کا مشین میں  ڈھلنا یا سٹی پلاننگ جیسے کام امن کے ذریعہ انجام پائے، نہ کہ تشدد کے ذریعہ۔ سماجی فلاح سے لے کر انفراسٹرکچر تک ہر کام ہمیشہ پُر امن تدبیروں کے ذریعہ تکمیل پذیر ہوئے ہیں۔

تشدد ایک تخریبی عمل ہے۔ اورایک تخریبی عمل کے ذریعہ کبھی کوئی تعمیری واقعہ ظاہر نہیں ہوسکتا۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور فطرت کے قانون میں  تبدیلی ممکن نہیں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom