سکون کا سرچشمہ
مسٹر نٹور سنگھ (۷۱ سال) انڈیا کے ایک ممتاز لیڈر ہیں۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ کے لیے مشہور ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک شدید خاندانی حادثہ ہوا۔ اُن کی جوان بیٹی ریتو اور ان کی جوان بہو نتاشا صرف ایک مہینہ کے وقفہ سے حادثہ کا شکار ہو کر مرگئیں۔ اس کے فوراً بعد کانگریس کی صدر مسز سونیا گاندھی تعزیت کے لیے نئی دہلی میں اُن کے گھر گئیں۔ اُس وقت مسٹر نٹور سنگھ اپنے کمرۂ مطالعہ(study) میں تھے۔ یہاں انہوں نے دنیا بھر کی دس ہزار منتخب کتابیں اکٹھا کی ہیں۔ مسٹر نٹور سنگھ نے اُن کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز سونیا گاندھی سے کہا کہ ان کتابوں میں ملکی حکمت موجود ہے۔ صدیوں کی حکمت کا خلاصہ یہاں پایا جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بھی ایسی کتاب موجود نہیں جس کو پڑھ کر میں اپنے آپ کو تسکین دے سکوں:
Here you have the wisdom of the world, wisdom of the ages in concentrated form, but there is not a book I could pick up to console myself. (Hindustan Times, New Delhi, June 2, 2002, P. 14)
مسٹر نٹور سنگھ کیوں اپنے کمرۂ مطالعہ میں وہ کتاب نہ پاسکے جو اُنہیں مذکورہ حادثۂ موت کے موقع پر تسکین دے ۔ اس کا جواب خود اس انٹرویو کے اندر موجود ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسٹر نٹور سنگھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں مذہب میں یقین نہیں رکھتا، البتہ میں روحانیت کو مانتا ہوں۔
I don't believe in religiosity. I believe in spritualism.
مذہب کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، اور روحانیت کا فکری نظام خود انسان کے اپنے تصور پر۔ خدا کے عقیدہ سے الگ ہو کر روحانیت کا جو تصور ہے وہ اس مفروضہ پر قائم ہے کہ انسان کے اپنے اندر امکانی طورپر سب کچھ چھپا ہوا ہے، اس لیے تم اپنی داخلی دنیا میں دھیان لگاؤ۔وہاں تم کو سب کچھ مل جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو جو کچھ پانا ہے وہ خود اپنے آپ سے پانا ہے۔ یہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جو انسان مسئلہ کا شکار ہو وہ خود ہی اپنے مسئلہ کا حل کیسے بنے گا۔
مذہب جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے، اُس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مذہبِ اسلام کا فکری نظام خدا کے تصور پر قائم ہے، یعنی وہ ذات جو قادر مطلق ہے اور جس نے انسان کو قرآن کی صورت میں کامل رہنمائی عطا فرمائی ہے۔
قرآن میں مذکورہ قسم کے مسئلہ کا حل واضح طورپر ملتا ہے۔ اس سلسلہ کا ایک براہ ِ راست حوالہ یہ ہیــــولکل امۃ اجل فإذا جاء اجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون (الاعراف۳۴) یعنی ہر امت (اور ہر انسان) کے لیے ایک مقرر مدت ہے۔ جب اُن کی مدت پوری ہو جائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
اس قرآنی تصور کے مطابق، ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ صرف اس لیے آتا ہے کہ وہ ایک مقرر مدت پوری کرنے کے بعد یہاں سے چلا جائے۔ گویا انسان کی موت ایک ایسا واقعہ ہے جو بہر حال ہونے والا تھا اور وہ ٹھیک اپنے وقت پر ہوگیا۔ اس اعتبار سے موت ایک فطری حقیقت ہے، ایک ایسی فطری حقیقت جس کی تبدیلی پر انسان قادر نہیں ۔
یہ عقیدہ انسان کے اندر اعترافِ حقیقت کا ذہن پیدا کرتا ہے، اور حقیقت کا اعتراف اپنے آپ انسان کو وہ چیز دے دیتا ہے جس کو مسٹر نٹور سنگھ نے تسلّی (console) سے تعبیر کیا ہے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آدمی کے ساتھ اگر کوئی چیز حسب توقع پیش آئے تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کا استقبال کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ ایسی چیز کو وہ معتدل انداز میں قبول کرلیتا ہے۔ البتہ اگر پیش آنے والا واقعہ اُس کے لیے غیر متوقع ہو تو اُس کا ذہن پیشگی طورپر اُس کی قبولیت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایک انسان موت کے حادثہ کو معمول کے واقعہ کے طورپر لیتا ہے۔ اور دوسرے انسان کے ساتھ جب موت کا واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اُس کے لیے ایک ایسے صدمہ (shock) کا سبب بن جاتا ہے جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے۔