صحبت کا فلسفہ
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اسلام میں جو امتیازی درجہ ملا وہ صحبت رسول کی بنا پر تھا۔ یہ بات بجائے خود صحیح ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحبت کوئی پُر اسرار (mysterious)چیز ہے اور اُس کی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں اصحاب رسول کو مجرد صحبت کی بنا پر خود بخود یہ فائدہ حاصل ہوا۔ یہ نظریہ علمی طورپر درست نہیں ۔ وہ اس معاملہ کی پوری توجیہہ نہیں کرتا۔ مثلاً اس نظریہ میں اس واقعہ کی توجیہہ موجودنہیں کہ مدینہ کے سیکڑوں دوسرے لوگ جو بظاہر ایمان لائے اور پیغمبر کی صحبت میں بار بار بیٹھے‘ مگر وہ آپ کی صحبت سے فیض حاصل نہ کرسکے اور اسلام کی تاریخ میں منافق کہلائے گئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اعلیٰ ایمان حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے‘ اور وہ ہے معرفت یا ذہنی ارتقاء۔ ایمان قبول کرنے کے بعد آدمی کے اندر معرفت کے رُخ پر ایک تفکیری عمل (thinking process) جاری ہوتا ہے۔ یہ تفکیری عمل ہی دراصل کسی مومن کے لیے اعلیٰ ایمانی درجہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
پیغمبر کی صحبت میں در اصل یہی تفکیری عمل جاری رہتا تھا۔ لوگ آپ کی باتوں کو سنتے‘ وہ آپ کی باتوں کو اپنے ذہن میں اس طرح جگہ دیتے کہ وہ اُن کے ذہن میں ہلچل پیدا کردیتا۔ اس طرح اُن کے اندر تفکیرکا عمل مسلسل ہر صبح و شام جاری رہتا۔ رسول اللہ کی صحبت اس تفکیری عمل کا ذریعہ تھی‘ اس لیے اُس کو صحبترسول سے منسوب کیا گیا۔
تاہم پیغمبر کی باتیں سادہ طورپر صرف سننا کافی نہیں ۔ پیغمبر کی باتیں صرف اُس انسان کے لیے مفیدبنیںگی جو ریسیپٹیو(receptive) ہو‘ جو یکسو ہو کر سنے اور پھر نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اُس کو قبول کر سکے۔ مخلص اہل ایمان میں یہ قبولیت (receptivity) پوری طرح موجود تھی اس لیے اُن کو صحبت رسول کا فائدہ حاصل ہوا۔ منافقین کے اندر یہ قبولیت موجود نہ تھی اس لیے وہ صحبت رسول کے باوجود اُس کا فائدہ نہ پاسکے۔
صحابیت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ: من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنا بہ و مات علی ذلک فہو صحابی(جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور اس پر اس کی موت واقع ہوئی تو وہ صحابی ہے)۔ یہ تعریف صحابیت کی ایک ناقص تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحبت کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عملی طورپر صحبت کی صورت کیا تھی۔ وہاں ایسا نہ تھا کہ مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے ہوں اور صحابہ بھی بعد از ایمان آپ کی صحبت میں خاموش بیٹھ کر صرف آپ کو دیکھتے رہتے ہوں۔ آپ کی صحبت میں ہمیشہ تفکر و تدبر کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں یہ تعلیم حکمت کا ایک حلقہ ہوتا تھا۔
اس کے برعکس واقعات بتاتے ہیں کہ آپ کی صحبت ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ ان لوگوں کے سامنے نعمت رب کی تحدیث فرماتے تھے (الضحیٰ)۔ آپ حاضرین کو اُس رزق رب سے باخبر کرتے تھے جس کی توفیق آپ کو اللہ کی طرف سے دی جاتی تھی (طٰہ) آپ قرآن کی آیتوں کی تشریح فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کے سوال کا جواب دیتے تھے۔آپ وہ باتیں فرماتے تھے جس سے لوگوں کا شک یقین میں بدل جاتا تھا۔ آپ لوگوں کو ذکر و دعا اور حمد و شکر کے کلمات کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ لوگوں کو قرآن کے نازل شدہ حصّے سناتے تھے۔ آپ لوگوں کو پچھلے انبیاء اور پچھلے اہل ایمان کے پُر تاثیر واقعات کی خبر دیتے تھے‘ وغیرہ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے آپ سے اس قسم کی زلزلہ خیز باتیں سنتے تھے۔ آپ کی صحبت میں لوگوں کو اس طرح فکری ہلچل کی غذا ملتی تھی۔ آپ کی صحبت مکمل معنوں میں ایک زندہ صحبت تھی۔ آپ کی صحبت کا اس طرح زندگی بخش ہونا وہ اصل سبب تھا جس نے آپ کے ہم زمانہ اہل ایمان کو وہ عظیم درجہ دے دیا جس کو تاریخ میں اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ یہ فکری انقلاب کا ایک واقعہ تھا‘ نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت میں بیٹھنے کا۔
یہی معاملہ بعد کے دور کے علماء اور بزرگوں کا ہے۔ اُن میں سے کسی کی صحبت میں پُر اسرار تاثیر نہیں ۔ یہ معاملہ تمام تر صحبت میں بیٹھنے والوں اور وہاں کی باتیں سننے والوں کی اپنی استعداد پر منحصر ہے۔ جن افراد کے اندر مادّہ قبولیت ہوگا وہ صحبت کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ اور جن افراد کے اندر قبولیت کا مادّہ نہ ہوگا وہ فائدہ سے محروم رہیں گے۔ اس تشریح کی روشنی میں صحابی کی زیادہ صحیح تعریف یہ ہونا چاہئے: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں دیکھا اور آپ کی صحبت سے استفادہ کیا اور اسی حال میں اُس کی موت ہوئی تو وہ صحابی ہے۔
عمومی صحبت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی صحبت جو اکثر مسجد میں یا کسی اور مجلس میں آپ کے اصحاب کو حاصل ہوتی تھی‘ اُس کی ایک مثال یہاں نقل کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کی مجلسوں میں اصحابِ رسول کو کس طرح ذہنی تعمیر کی خوراک ملتی رہتی تھی۔
عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف أنتم و ائمۃ من بعدی‘ یستأثرون بہذا الفیٔ‘ قلت: اَمَا والذی بعثک بالحق‘ اضع سیفی علی عاتقی‘ ثم اضرب بہ حتی القاک‘ قال: اولا ادلک علی خیر من ذلک: تصبر حتی تلقانی (سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح ۲؍۱۰۹۵)
ترجمہ : ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمہارا حال کیا ہوگا جب میرے بعد والے حکمراں آئیں گے۔ وہ فئ(اموال حکومت) کو اپنے لیے خاص کر لیں گے۔ میں نے کہا کہ اُس خدا کی قسم‘ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے‘ میں تلوار کو اپنے کندھے پر رکھو ں گا اور پھر اس سے اُنہیں ماروں گا یہاں تک کہ میں آپ سے مل جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس سے زیادہ بہتر بات نہ بتاؤں۔ تم صبر کرو‘ یہاں تک کہ تم مجھ سے مل جاؤ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ اپنے اصحاب کو ایک نئی فکر ی روشنی دی۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ جب اپنے حکمرانوں میں بگاڑ دیکھتے ہیں تو وہ اصلاح سیاست کے نام پر اُن سے متشددانہ ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ بگاڑ کے زمانہ میں حکمرانوں سے ٹکراکر شہید ہوجانے سے زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ اُن کے بگاڑ پر صبر کیا جائے‘ اور یہ سب اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب کہ انسان کی موت آجائے۔
اس حدیث میں ’’صبر‘‘ سے مراد بے عملی نہیں ہے بلکہ اُس سے مراد ایک عظیم ترین عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں سے نزاع کاطریقہ چھوڑ کر اپنے عمل کے لیے غیر نزاعی طریقہ ڈھونڈنا اور اُس پر کاربند ہوجانا۔ سیاسی نزاع کا طریقہ ہمیشہ بے صبری کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں نزاع کو ایوائڈ کرتے ہوئے عمل کرنا اُس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی اپنے جذبات پر کنٹرول کرکے صابرانہ انداز میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
یہ ایک عظیم حکمت تھی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو تلقین فرمائی‘ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین نے اس حکمت کو سمجھا اور اُس پر بھر پور عمل کیا۔ اس کے نتیجہ میں دور اوّل میں وہ عظیم اسلامی کام انجام پایا جو مذکورہ صابرانہ سیاست کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے‘ خلفائے راشدین کے بعد فوراًسیاست میں بگاڑ آگیا۔ مسلم حکمراں شریعت کے مقرر راستے سے ہٹ گئے۔ اُس زمانہ میں اگر اہلِ ایمان اپنے حکمرانوں سے متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرتے تو اُس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ پہلی اور دوسری نسل کے تمام بہترین لوگ قتل کردیئے جاتے۔ ابتدائی نسل کے وہ تمام تاریخ ساز لوگ قبروں میں دفن ہوجاتے۔ اسلام کی وہ عظیم تاریخ بننے کی نوبت ہی نہ آتی جو ان لوگوں کے ذریعہ بنی۔
مثلاً ابتدائی نسل کے یہی وہ لوگ ہیں جوسیاسی ٹکراؤ کے محاذ کو چھوڑ کر پُر امن دعوت کے میدان میں سرگرم ہوگئے اور کروڑوں لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے دورِ پریس سے پہلے قرآن کی حفاظت اور اشاعت کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال دوسری آسمانی کتابوں میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے لاکھوں حدیثوں کو جمع کرکے اُن کی چھان بین کی اور صحیح احادیث کے مجموعے تیار کرکے دنیا کو علم حدیث کا قیمتی تحفہ دیا۔ اُنہوں نے فقہ کی تدوین کا وہ عظیم کام انجام دیا جس کی مثال کسی اور دین میں موجود نہیں ۔
اسی طرح یہی ابتدائی نسل کے لوگ ہیں جنہوں نے حکومتی بگاڑ سے صرف نظر کرکے تمام اسلامی علوم کو مدون کیا۔ مثلاً سیرت‘ تاریخ‘ عقائد وکلام‘ عربی زبان کے لغات تیار کرنا‘ نحو اور صرف اور بلاغت اور دوسرے متعلق علوم کی ترتیب و تدوین۔
دور اول کے اہل ایمان کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اسلام ہر اعتبار سے ایک محفوظ اور معتبر تاریخی دین بن گیا۔ جب کہ کسی بھی دوسرے مذہب کو یہ حیثیت حاصل نہیں ۔ اور یہ تمام کارنامے صرف اس لیے انجام پائے کہ دور اول کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی دی ہوئی رہنمائی کی بنا پر یہ حکیمانہ طریقہ اختیار کیا کہ انہوں نے سیاسی بگاڑ کے مقابلہ میں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور خدمتِ اسلام کے اُن بقیہ شعبوں میں پُر امن طورپر سر گرم عمل ہوگئے جو غیر نزاعی میدان میں اُنہیں حاصل تھا۔
توسیعی صحبت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۶ میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا ہے کہ وہ ساجدین کے درمیان تمہارے تقلّب کو دیکھ رہا ہے (الشعراء ۲۱۹) قرآن کی اس آیت میں ساجدین سے مراد مؤمنین ہیں۔ اور تقلّب کا مطلب ہے ‘ چلنا پھرنا۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صبح وشام کی سرگرمیاں ہیں جو آپ اہل ایمان کی اصلاح کے لیے اور اُن کے اندر دینی شعور کو بیدار کرنے کے لیے انجام دیتیتھے۔ آپ کی یہ کوششیں بھی توسیعی مفہوم میں صحبت رسول کا ایک حصہ تھیں۔ ان کوششوں کے دوران آپ مسلسل اہل ایمان کے دینی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ توسیعی صحبت کے معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں اس قسم کی ایک مثال نقل کی جاتی ہے:
عن ابی ہریرہ ان رجلاشتم أبا بکر والنبی صلی اللہ علیہ وسلم جالس فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعجب ویتبسم فلما اکثر رد علیہ بعض قولہ فغضب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وقام فلحقہ ابوبکر فقال یا رسول اللہ کان یشتمنی وأنت جالس فلما رددت علیہ بعض قولہ غضبت وقمت قال انہ کان معک ملک یردعنک فلما رددت علیہ بعض قولہ وقع الشیطان فلم أکن لأقعد مع الشیطان (مسند احمد‘ ۲؍۴۳۶)
ترجمہ : ابو ہریرہ بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے ابوبکر کے خلاف سبّ وشتم کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر متعجب ہوتے رہے اور تبسم فرماتے رہے۔ جب اُس آدمی نے بہت زیادہ سخت کلامی کی تو ابوبکر نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دے دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ گئے۔ پھر ابو بکر چل کر اُن سے ملے۔ اُنہوں نے کہا کہ ائے خدا کے رسول‘ وہ آدمی مجھ کو سبّ وشتم کر رہا تھا اور آپ بیٹھے رہے۔ پھرجب میں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو آپ غصہ ہوگئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے بول رہا تھا۔ پھر جب تم نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا تو( فرشتہ چلا گیا )اور شیطان آگیا۔ تو میں نے شیطان کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
یہ اُس چیز کی ایک اعلیٰ مثال ہے جس کو ہم نے پیغمبر کے ذریعہ ملی ہوئی شعوری بیداری کہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر دو قسم کی صفات ہوتی ہیںــــــنفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ نفس امّارہ شیطان کی علامت ہے اور نفس لوّامہ فرشتہ کی علامت۔ ایک آدمی آپ کو گالی دے اور آپ چُپ رہیں تو گالی دینے والے کا نفس لوّامہ بیدار ہو کر اندر ہی اندر اُس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ یہ گویا آپ کی طرف سے فرشتہ کا جواب دینا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ ایسا کریں کہ سخت کلامی کے جواب میں آپ بھی سخت کلامی کریں تو دوسرے آدمی کا نفس امّارہ متحرک ہوجائے گا۔ یہ آدمی کا شیطان کے زیر اثر آجانا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس تلقین کے ذریعہ صحابہ کو ایک عظیم حقیقت بتائی۔ آپ نے صحابہ کے اندر وہ فکری روشنی پیدا کی جو ہر معاملہ میں اُن کی کامیابی کی ضامن بن جائے‘ خواہ وہ معاملہ انفرادی ہویا اجتماعی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ اہل ایمان کو ایک گہری سوچ عطا کی۔ آپ نے بتایا کہ ہر انسان کے اندر پیشگی طورپر دو مختلف قسم کی شخصیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ایک‘ تمہاری دشمن شخصیت اور دوسری‘ تمہاری دوست شخصیت۔ یہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے کہ تم فریقِ ثانی کو اپنا دوست بناتے ہو یا اپنا دشمن۔ اگر تم نے فریقِ ثانی کے نفسِ امّارہ کو جگایا تو اُس کی دشمن شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔ اور اگر تم نے اُس کے نفس لوّامہ کوجگایا تو اُس کی دوست شخصیت تمہارے حصہ میں آئے گی۔
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ اس اہم حقیقت کی طرف نشان دہی فرمائی کہ اس دنیا میں کچھ نہ کرنے کا نام بھی کرنا ہے اور کچھ نہ بولنے کا نام بھی بولنا ۔ اگر ایک شخص آپ کے خلاف سبّ وشتم کررہا ہے اور آپ جواب نہیں دیتے‘ تو اس کا مطلب سادہ طور پر یہ نہیں ہے کہ آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خاموش رہ کر زیادہ طاقتور متکلم کو بولنے کا موقع دیا۔ یعنی خدا کے فرشتہ کو۔ اس طرح یہ ممکن ہوا کہ آپ جو کام کم موثر انداز میں انجام دیتے‘ اُس کو خدا کے فرشتہ نے زیادہ موثر انداز میں انجام دے دیا۔