جنگ سے امن تک

قرآن میں  دو مقام پر یہ آیت آئی ہے کہ فتنہ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرو (وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)۔ اس آیت میں  فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ اس آیت کے ذریعہ رسول اور اصحاب رسول کو حکم دیا گیا کہ تم لوگ مذہبی جبر کے موجودہ نظام کو توڑ دو تاکہ دنیا میں  مذہبی آزادی کا ماحول قائم ہو جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کو اختیار کرنا چاہیں اُن کے راستہ میں  کوئی پابندی باقی نہ رہے۔ واضح ہو کہ پیغمبر اسلام کے معاصر قوتوں نے آپ کے خلاف خود ہی بدء (التوبہ ۱۳) کا عمل کیا۔ اس طرح اُنہوں نے جارحیت کا آغاز کرکے فتنہ کے خلاف آپ کے آپریشن کو دفاعی جنگ کی صورت دے دی۔

اس آیت میں ایک معلوم اور متعین مقصد کے لیے جنگ کا حکم دیا گیا تھا‘ اور وہ تھا‘ مذہبی جبر کا خاتمہ۔ اس آیت کو لے کر کسی اور مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا درست نہ تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں  ایسا کیا گیا کہ قتالِ فتنہ کے حکم کی توسیع کرکے اُس کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک انحراف (deviation) یا گاڑی کا اپنی پٹری سے اُترنا(derailment) تھا۔ مگر ایسا ہوا‘ اور اس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے آج تک جاری ہے۔

۱۔ اس سلسلہ میں  پہلا انحراف اصحابِ رسول کی دوسری نسل(second generation) میں  پیش آیا۔ اس معاملہ میں  دو نام زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک الحسین بن علی (م ۶۱ھ) اور دوسرے عبد اللہ بن الزبیر (م ۷۳ھ)۔ دونوں حضرات نے اموی حکمراں یزید بن معاویہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔ دونوں حضرات نے اپنے عمل کے وجہ جواز کے طورپر یزید کے ظلم کا حوالہ دیا۔ دوسرے لفظوں میں  یہ کہ جس قتال فتنہ کا تعلق مذہبی جبر سے تھا اُس میں  تصرف کرکے اُس کو اُنہوں نے سیاسی بدعنوانی (political corruption)تک وسیع کر دیا۔

قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بلا شبہہ ایک اجتہادی خطا تھی۔ اس کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامﷺنے واضح طورپر یہ حکم دیا تھا کہ میرے بعد حکمرانوں کے بگاڑ کو لے کر ہر گز اُن کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حضرات کی جنگوں کے وقت صحابۂ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی‘ مگر وہ ان جنگوں میں  شریک نہیں  ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے واضح طورپر اعلان کیا کہ بعد کے زمانہ کی یہ جنگ قتال فتنہ کے حکم سے انحراف ہے‘ نہ کہ اُس کا اتباع(صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر)

۲۔ اس سلسلہ کا دوسرا انحراف زیادہ بڑے پیمانہ پر خلافت راشدہ کے بعد شروع ہوا اور پھرتقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ انحراف مسلم حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا۔ اُنہوں نے مذہبی جبر کے خلاف جنگ کے مفہوم میں  اضافہ کرکے اُس کو مسلم سلطنت کی توسیع(political expansion) کے معنیٰ میں  لے لیا۔ وہ پوری دنیا میں  مسلم سلطنت کی توسیع کے لیے لڑائیاں لڑتے رہے۔

قتال فتنہ کے حکم کی یہ توسیع بھی بلا شبہہ ایک انحراف تھی۔ قرآن میں  امت کو جو عالمی مشن دیا گیا تھا وہ شہادت علی الناس تھا‘ نہ کہ لوگوں کے اوپر اپنا سیاسی اقتدار قائم کرنا۔ یہی بات پیغمبر اسلام نے حجۃ الوادع کے موقع پر اس طرح فرمائی کہ اللہ نے مجھ کو سارے انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ اس لیے تم میرے لائے ہوئے پیغام کو میری طرف سے تمام دنیا والوں تک پہنچا دو (فأدوا عنی) اس اعتبار سے بعد کے دور میں  مسلمانوں کا اصل کام دعوت الی اللہ تھا‘ نہ کہ اقتدار کی سیاست چلانا۔

۳۔ اس سلسلہ کا تیسرا شدید تر انحراف وہ ہے جو موجودہ زمانہ میں  پیش آیا۔ یہ کچھ مسلم مفکرین کی طرف سے مذکورہ قرآنی آیت کی نام نہاد انقلابی تفسیر تھی۔ ان لوگوں نے آیت کے حکم میں  خود ساختہ توسیع کرکے اُس کو قتال برائے تنفیذ احکام کے معنیٰ میں  لے لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آیت کے مطابق‘ ہر زمانہ کے مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ وہ حکمرانوں سے جنگ کرکے اسلام کے احکام کو ہر جگہ نافذ کریں۔

قتالِ فتنہ کے حکم میں  یہ توسیع ایک مہلک قسم کا انحراف ہے۔ اس نے مسلمانوں کے اندر غلط طورپر یہ ذہن پیدا کیا کہ ہرجگہ اسلامی حکومت قائم کرنا اُن کا مذہبی فریضہ ہے۔ اس کے نتیجہ میں  ہرجگہ جہاد کے نام پر تشدد ہونے لگا۔ کچھ مسلمان گن اور بم لے کر دنیا والوں پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے مسلمان جنہوں نے اس متشددانہ فعل میں  عملاً شرکت نہیں  کی‘ وہ بھی اس انقلابی نظریہ سے اتنا مسحور ہوئے کہ وہ اس کی ہمت نہ کرسکے کہ وہ کھُل کر اُس کی مذمت کریں اور اُس کے غیر اسلامی ہونے کا اعلان کریں۔

بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری اسلام کے نام پر اس غیر اسلام کا نمونہ بن گئی۔ اس کا نتیجہ دو مہلک صورتوں میں  بر آمد ہوا۔ ایک‘ اسلام کی بدنامی۔ ساری دنیا میں  اسلام خلاف واقعہ طورپر نفرت اور تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لندن کے مشہور انگریزی روزنامہ میں  اسلام کے بارے میں  ایک آرٹیکل چھپا جس کا عنوان یہ تھاــــــــایک مذہب‘ جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:

A religion that sanctions violence.

دوسری خرابی یہ ہوئی کہ موجودہ زمانہ میں  اسلامی دعوت کے حق میں  جو نئے قیمتی امکانات پیدا ہوئے تھے وہ استعمال ہونے سے رہ گئے۔ مسلمان خود ساختہ جہاد کے نام سے اپنے آپ کوبے فائدہ طورپر ہلاک کرتے رہے‘ وہ جدید مواقع کو استعمال کرکے اسلام کا حیات بخش پیغام دوسروں تک نہ پہنچا سکے۔

اکیسویں صدی عیسوی میں  مسلمانوں کے لیے پہلا ضروری کام اسی غلطی کی تصحیح ہے۔ کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسلام کے نام پر ہونے والے تشدّد کو فوری طور پر اور مکمل طورپر بند کردیا جائے۔ اس معاملہ میں  کسی بھی عذرکو‘ خواہ وہ بظاہر کتنا ہی سنگین ہو‘ رکاوٹ نہ بنایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں  اسلام کے حقیقی احیاء کا نقطۂ آغاز یہی ہے۔ نفرت اور تشدد کے ماحول کو ختم کرکے اہلِ اسلام سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں‘ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ۔

امن برائے امن

امن (peace) کیا ہے۔ اہلِ علم اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ امن عدمِ جنگ (absence of war) کا نام ہے۔ یعنی جنگ نہ ہو رہی ہو تو کہا جائے گا کہ امن قائم ہے۔ جنگ کی حالت نہ ہونے کا نام امن کی حالت ہے۔ جو لوگ اپنے کسی حق (right) کے نام پر متشددانہ جنگ کررہے ہیں‘ وہ اس سے اتفاق نہیں  کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن مع انصاف (peace with justice) کا نام امن ہے۔ جس امن سے انصاف حاصل نہ ہو وہ امن بھی نہیں ۔

یہ دوسرا نظریہ ایک غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ اس طرح سوچیں اُن کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ کبھی انصاف۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا مقصد مواقع(opportunities) کو حاصل کرنا ہے‘ نہ کہ انصاف کو حاصل کرنا۔ امن بجائے خود کسی کو انصاف نہیں  دیتا۔ امن صرف یہ کرتا ہے کہ و ہ معتدل حالات قائم کر دیتا ہے جس میں  عمل کرکے انصاف یا حق حاصل کیا جاسکے۔
موجودہ دنیا میں  جب بھی کسی کو کوئی چیز ملتی ہے وہ اُس کے اپنے عمل کے نتیجہ میں  ملتی ہے۔ امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ آپ کے حق میں  وہ معتدل حالات پیدا کردے جس میں  آپ کے لیے اپنے موافق منصوبہ بندی کرنا ممکن ہوجائے۔ جنگ و تشدد کے حالات کا م کے مواقع کو برباد کرتے ہیں۔ جب کہ امن اور صلح کے حالات کام کرنے کے تمام دروازے اس طرح کھول دیتے ہیں کہ اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں  رہتا۔

جنگ کا دور ختم

پائرس (Pyrrhus) قدیم یونان کا ایک بادشاہ تھا۔ وہ ۳۱۹ ق م میں  پیدا ہوا‘ اور ۲۷۲ ق م میں  اُس کی وفات ہوئی۔ ۲۷۹ ق م میں  اُس کی لڑائی رومیوں (Romans) سے ہوئی۔ اس جنگ میں  شاہ پائرس جیت گیا۔ مگر جب لڑائی ختم ہوئی تو اُس کی اقتصادیات اور اُس کی سیاسی اور فوجی طاقت پوری طرح تباہ ہوچکی تھی۔ اسی واقعہ سے پِرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کی اصطلاح بنی ہے‘ یعنی تباہ کن فتح۔

قدیم زمانہ میں  پرک وکٹری یا تباہ کن فتح کا واقعہ بہت کم پیش آسکتا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ میں  جدید ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ہر جنگ تباہ کن جنگ بن چکی ہے۔ اب جنگ جیتنے والے اور جنگ ہارنے والے کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ اخباروں میں  دونوں کی خبریں الگ الگ الفاظ میں  چھپتی ہیں‘ ورنہ حقیقت کے اعتبار سے دونوں کا معاملہ ایک ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں  ہار بھی ہارہے اور جیت بھی ہار۔

موجودہ زمانہ میں  جنگ صرف خود کشی ہے‘ جنگ اب کسی مثبت مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ۔ کسی قوم سے کوئی چیز کھوئی گئی ہو تو اُس کے لیے صبر ہے‘ نہ کہ جنگ۔ کیوں کہ جنگ اب اس کے لیے محرومی پر ذلت کا اضافہ ہے۔ امن کا بدل جنگ نہیں ‘ امن کا بدل گفت وشنید ہے۔

اس معاملہ کی ایک مثال پاکستان کی تاریخ میں  ملتی ہے۔ پاکستان ۱۹۴۷ میں  بنا۔ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا مشرقی حصہ تھا۔ پھر ایسے حالات پیش آئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پوری طرح الگ ہوگیا۔ آخر کار پاکستان نے حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس جغرافی محرومی پر صبر کر لیا۔ اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تووہ اپنے کھوئے ہوئے حصہ کی خاطر اپنے بقیہ حصہ کو بھی تباہ کرلیتا۔ جنگ کا مطلب نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ جو کچھ بچا ہے اُس کو بھی کھو دیا جائے‘ جزئی محرومی کو کلی محرومی بنا دیا جائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ اب کسی کے لیے بھی کوئی انتخاب (option)نہیں ۔ آج کی جنگ میں  ہارنے والے کے لیے بھی ہار ہے اور جیتنے والے کے لیے بھی ہار۔ تاہم اس میں  مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ دور جدید نے اگر ایک طرف جنگ کو ناممکن بنادیاہے تو دوسری طرف جدید دور کے نتیجہ میں  ایسی انقلابی تبدیلیاں ظہور میں  آئی ہیں کہ کوئی بھی محرومی کسی کے لیے محرومی ثابت نہ ہو۔ آج کو ئی فرد یا گروہ‘ خواہ وہ کسی بھی حال میں  ہو‘ از سرِ نو اپنی منصوبہ بندی کرکے دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ کھونے کے بعد وہ کامیابی کے نئے امکانات کو پاسکتا ہے

موجودہ زمانہ میں  کمیونیکیشن نے چھوٹے ملک اور بڑے ملک کے فرق کو مٹا دیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے جدیددورنے جغرافی محدودیت کے تصور کو عملاً غیر موثر بنادیا ہے۔ جدید تبدیلیوں کے بعد اب جنگ کی حیثیت کسی صحت مند انتخاب کی نہیں  رہی۔
اب جنگ سادہ طورپر صرف جنگ نہیں ‘ وہ غصہ اور نفرت اور مایوسی کے تحت پیش آنے والا ایک منفی واقعہ ہے‘ نہ کہ کسی تعمیری منصوبہ بندی کا مثبت نتیجہ۔ اب جنگ صرف خود کشی کی مایوسانہ چھلانگ ہے‘ وہ کسی صحت مند ذہن کے تحت کیا ہوا مفید اقدام نہیں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom