ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ابلیس نے یہ بتائی کہ: أنا خیر منہ (الأعراف ۱۲) ۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو أنا خیر منہ کی نفسیات میں جیتے ہوں ،اوردوسرے وہ جوالحق خیر منی کی نفسیات میں جئیں۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملہ میں یہ تقسیم بے حد اہم ہے۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ایک ارتقاء پذیر عمل ہے۔ اُس میں مسلسل اضافہ ہوتارہتا ہے (الکہف ۱۳)۔ اس قانون الٰہی کانتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ الحق خیر منی کی نفسیات میں جئیں اُن کی ہدایت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اورجو لوگ أنا خیر منہ کی نفسیات میں جئیں اُن کے لیے ہدایت کا دروازہ بند ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سب کچھ لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ سیکھنے کے عمل کے ذریعہ اُس کو بار بار اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت عمر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کان یتعلم من کل احدٍ (وہ ہر ایک سے علم سیکھتے تھے)۔ یعنی اُن کا تجسس اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب بھی کسی کی طرف سے کوئی قابل اخذ چیز سامنے آتی تو وہ بلا تاخیر اُس کو لے لیتے تھے۔
بمبئی کے حالیہ سفر میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کی ڈائری شوق سے پڑھتا ہوں اور بار بار پڑھتا ہوں۔ اس میں طرح طرح کی معلومات ملتی ہیں۔ مگر میں آپ کی کتابیں نہیں پڑھتا ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کتاب کو پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ ایک بولے اور دوسرا سنے۔ کتاب کا مطالعہ یک طرفہ عمل ہے، وہ دو طرفہ عمل نہیں ۔ میں نے کہا کہ مطالعۂ کتاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ۔ مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری حصہ داری (intellectual sharing) ہے۔ یہ مکمل طورپر ایک دو طرفہ عمل ہے۔ البتہ صاحبِ مطالعہ ذہنی بیداری کے جس درجہ پر ہوگا اُسی کے بقدر وہ مطالعہ کے عمل میں حصہ دار بن سکے گا۔
میں اپنی ساری زندگی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ مگر میرا مطالعہ ہمیشہ دو طرفہ عمل تھا، نہ کہ یک طرفہ عمل۔ مثلاً میں نے انگریز فلسفی برٹرینڈر سل کی کتابیں پڑھیں۔ یہ کتابیں مصنف نے تشکیک اورالحاد پر لکھی تھیں۔ مگر دو طرفہ ذہنی عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ برٹرینڈرسل کی کتابوں میں برعکس طورپر ایک نہایت اہم چیز دریافت ہوئی۔ اور وہ ہے اسلامی عقائد پر استدلال کا سائنسی انداز۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب: مذہب اور سائنس۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کے لیے اُس کی پوری زندگی ایک تعلّمی عمل (learning process) ہے۔ ایسا آدمی اپنے مشاہدہ اور تجربہ اور مطالعہ کے دوران ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ وہ ہر چیز سے کچھ نہ کچھ لیتا ہے۔ ہرچیز اُس کے لیے اُس کی معرفت میں اضافہ کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا۔ (حکمت مومن کا کھویا ہوا سرمایہ ہے، وہ جہاںاُس کو پائے تو وہی اُس کا زیادہ حق دار ہے)۔
تعلّم (learning) کے اس عمل کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کی دو لازمی شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ آدمی کے اندر روح تجسس (spirit of inquiry) اتنی زیادہ پائی جائے کہ وہ کبھی اور کسی حال میں اُس سے سیر نہ ہوسکے۔
اس معاملہ میں دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی عُجب اور خود پسندی کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہو۔ جب بھی کوئی اچھی بات اُس کے سامنے آئے تو وہ اُس کو کسی تردّد کے بغیر فوراً اخذ کرلے۔ وہ قرآن کے الفاظ میں ، اخذتہ العزۃ بالاثم (البقرہ ۲۰۶) کا مصداق نہ بنے۔
عام طورپر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کوئی حقیقت اگر انسان کے سوا کسی اور ذریعہ سے آئے تو وہ اُس کو مان لیتے ہیں، اُس کو ماننے میں کوئی چیز اُن کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن جب اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ کوئی ایسی حقیقت اُن کے سامنے آئے جس کو وہ پہلے سے نہ جانتے ہوں تو اُس کو ماننا اُن کے لیے سخت دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے اس کی بات مان لی تو میرا قد اُس کے مقابلہ میں چھوٹا ہو جائے گا۔ یہ نفسیات اُن کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، خواہ اس حق کو کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے بیان کیا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتراف علم کا دروازہ ہے۔ اعتراف آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ اُس کے اخذ کا عمل کبھی نہ رُکے۔ اُس کاذہنی ارتقاء کسی روک کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کو میں بیس سال یا چالیس سال پہلے جانتا تھا۔ اب لمبے وقفہ کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ہمیشہ پایا کہ وہ آدمی آج بھی وہیں ہے جہاں وہ پہلے تھا۔ ان میں سے اکثر اس مدت میں مادّی اعتبار سے کافی ترقی کرچکے ہوتے ہیں مگر فکری اعتبار سے وہ اب بھی وہیں ہوتے ہیں جہاں وہ بیس سال یا چالیس سال پہلے تھے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مادی کمائی کے میدان میں تو اُنہوں نے اپنے ذہن کو خوب لگایا مگر فکری ترقی کے میدان میں وہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے سے عاجز رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے چار خاص کام بتائے گئے ہیںـــــتلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ (البقرہ ۱۲۹) تلاوت آیات کامطلب ہے ،نازل شدہ قرآن کو لوگوں تک پہنچانا۔ تعلیم کتاب سے مراد تفصیلی قوانین کی تعلیم ہے۔ تعلیمِ حکمت سے مراد ہے، قرآن کی تعلیمات میں چھپی ہوئی وزڈم (wisdom) کو کھولنا۔
تزکیہ کو عام طورپر پُر اسرار معنوں میں لیا جاتا ہے اور اُس کو تطہیر نفوس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر اس تشریح سے تزکیہ کی پوری معنویت واضح نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک تزکیہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ذہنی ارتقاء کہا جاتا ہے۔ پیغمبر کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ وہ ہر فرد کے ذہن کو بیدار کرے۔ وہ لوگوں کے اندر معرفت کا عمل جاری کرے۔ وہ لوگوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرکے اپنی شخصیت کو ارتقاء یافتہ شخصیت بنائیں۔
ایک بیدار ذہن یہ کرتا ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ جو چیزیں اُس کے سامنے آتی ہیں اُن کو وہ تدبر اور توسّم کے ذریعہ معرفت حق میں ڈھالتا رہتا ہے۔ یہی تزکیۂ نفس ہے اور پیغمبرکی سنت کے مطابق، علماء کویہ کرنا ہے کہ وہ خود اس معرفت کے حامل بنیں اور دوسروں کو اسی مفہوم میں صاحبِ معرفت بننے کی مدد کریں۔
تزکیۂ نفس کا کوئی تعلق صوفیا کی ’’روحانی‘‘ مشقوں سے نہیں ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد تزکیۂ فکر ہے۔ یعنی آدمی کے ذہن کو کنفیوژن سے نکال کر اُس کے اندر سِداد فکر پیدا کرنا۔ تحلیل و تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرکے اُس کو اس قابل بنانا کہ وہ معاملات میں صحیح رائے تک پہنچ سکے۔ اُس کے ذہن کو اس طرح کھولنا کہ وہ اعلیٰ حقائق کی گرفت کے قابل ہوجائے۔ اُس کے اندر اشیاء کی وہ معرفت پیدا کرنا کہ وہ حق کو ہر صورت میں اور ہر حال میں پہچان لے۔ اُس کے اندر وہ بلند فکری پیدا کرنا جو ہر بھٹکاؤ سے اوپر اُٹھ کر چیزوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔
آخر میں عرض ہے کہ علم یا معرفت کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط تواضع (modesty) ہے۔ کسی آدمی کے اندر ساری صلاحیت ہو مگر اُس کے اندر سچی تواضع نہ ہو تو وہ کبھی علم ومعرفت کا اعلیٰ درجہ نہیں پاسکتا۔ علم صرف اُس سینہ کے اندر جگہ پاتا ہے جو کبر اور انانیت اور خود پسندی جیسے جذبات سے پاک ہو۔ حقیقی علم دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو تواضع کے بغیرنہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی شخص کو علم صرف اُس وقت ملتا ہے جب کہ وہ اپنے اندر حقیقی معنوں میں تواضع پیدا کرچکا ہو۔ کبر او ر علم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۴؍ستمبر ۲۰۰۲ وحید الدین