ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۳جولائی ۲۰۰۲ ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإنی لا أخاف علی امتی الا الائمۃ المضلین (الترمذی، کتاب الفتن، ابو داؤد، کتاب الفتن، الدارمی، مقدمہ، مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ کرنے والے لیڈروں سے ڈرتا ہوں۔
میں نے اس حدیث پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس سے مراد غالباً صنعتی دور کے مسلم لیڈر ہیں۔ صنعتی دور میں ایسے قیادتی مواقع کھلے ہیں جو اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ان عظیم قیادتی مواقع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ لیڈر بننے میں ایسے فائدے ملنے لگیں گے جو پہلے راجاؤں اور نوابوں کو بھی حاصل نہ تھے۔ اس مادی کشش کے نتیجہ میں استحصالی لیڈروں کی ایک نئی قسم وجودمیں آئے گی۔ غالباً یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الأئمۃ المضلون کہاگیا ہے۔لیڈروں کا یہ گروہ سستی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر یہ کرے گا کہ وہ مسلم عوام کو جذباتی خوراک دے گا۔ وہ دل پسند الفاظ بول کر عوام کی بھیڑ اپنے گرد اکٹھا کرے گا اور پھرمادی فائدوں کی صورت میں اُس کی شاندار قیمت وصول کرے گا۔
گمراہ کرنے والے ان لیڈروں کی ایک صفت جو موجودہ زمانہ میں تجربہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو منفی سوچ میں ڈال کر اُن کی اصلاح کو تقریباً ناممکن بنادیا ۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان طول امد (الحدید ۱۶) کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوئے۔ اُن میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اب اللہ کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کے اوپرتنبیہات نازل ہوئیں۔ یہ تنبیہات اس لیے تھیں کہ مسلمانوں کے اندر احتساب خویش کا مادہ ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔
مگر عین وقت پر ساری دنیا میں گمراہ کرنے والے لیڈروں کی فوج ظاہر ہوئی۔ انہوں نے یہ کیا کہ جو واقعات خدائی تنبیہہ کا درجہ رکھتے تھے، اُن کو اس حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا کہ وہ تمہارے دشمنوں کی سازش کی بنا پر پیش آئے ہیں۔ اس غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعات اس لیے تھے کہ اُن سے مسلمانوں کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ پیدا ہو، اُن سے مسلمانوں کے اندر مفروضہ دشمنوں کے خلاف نفرت اور انتقام کاجذبہ اُبھر آیا۔ مسلمانوں کی جو طاقت ذاتی اصلاح میں صرف ہوتی وہ مفروضہ دشمنوںسے لڑائی بھڑائی میں ضائع ہونے لگی۔ نام نہاد مسلم لیڈروں کا یہ فعل اللہ کے منصوبہ میں خلل اندازی کے ہم معنٰی تھا۔ اور بلاشبہہ اس سے زیادہ کوئی گمراہی کی بات نہیں کہ کوئی شخص اللہ کے منصوبہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے۔ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو یہ گمراہ لیڈر، حدیث کے الفاظ میں امانت (honesty) سے محروم نظر آئیں گے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بعد کے زمانہ میں امانت اٹھالی جائے گی (صحیح البخاری، کتاب الفتن)۔ یہاں امانت سے مراد دیانت داری (honesty) ہے۔
موجودہ زمانہ کے نام نہاد مسلم لیڈر واضح طور پر اس کا مصداق ہیں۔ اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ ۱۹۴۷ میں اُن کا اور اُن کی فیملی کا اسٹیٹس کیا تھا تو آپ پائیں گے کہ اس مدت میں اُن کا اسٹیٹس سوگنا بڑھ چکا ہے۔ ہر ایک ایسی زندگی گذار رہا ہے جس کا پچاس برس پہلے اُس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسی حالت میں ان خود ساختہ لیڈروں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اُن کے پاس وہ کون سا نسخہ ہے جس سے اُن کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اُن کے بقول، مسلمانوں کی تباہی کے باوجود ٹھیک اسی مدت میں وہ خود اور اُن کی فیملی نے زبردست ترقی حاصل کرلی۔
اُن کی یہ دو عملی بلاشبہہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کے اندر امانت (honesty) نہیں ۔ اگر اُن کے اندر امانت و دیانت ہوتی تو یقینا وہ لوگوں کو اپنی ذاتی کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے، نہ کہ اُس کو چھپا کر مسلمانوں کو ظلم اور سازش کی خبر دیں۔ اوراس طرح مسلم ملّت کایہ حال کردیں کہ اُس کے لیڈر تو شاندار ترقی کررہے ہوں اور ملت محرومی کا شکاربنی رہے۔
۴ جولائی ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین