عورت اور مرد کا فرق
انگریز مستشرق ایڈورڈ ولیم لین(Edward William Lance) ۱۸۰۱ میں پیدا ہوا، اور ۱۸۷۶ میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ اس نے ایک کتاب منتخب ترجمۂ قرآن(Selections From Kuran) تیار کی۔ جو پہلی بار لندن سے ۱۸۴۳ میں چھپا۔ اِس کتاب کے دیباچے میں لین نے لکھا تھا کہ—اسلام کا تباہ کُن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے:
The fatal point in Islam is the degradation of woman. (p. 90)
مستشرق لین نے ۱۸۴۳ میں جوبات کہی تھی۔ اُس سے اس کی خاص مراد یہ تھی کہ اسلام کے قانونِ شہادت (evidence) میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر ماناگیا ہے۔ یہ دونوں صنفوں کے درمیان کُھلی ہوئی نابرابری ہے۔ اِس کے بعد بطور مسلّمہ یہ بات مان لی گئی کہ اسلام عہدِ جاہلیت کا مذہب ہے، وہ سائنسی دَور کا مذہب نہیں بن سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ نظریہ ڈیڑھ سو سال تک چلتا رہا۔ اس کہ بعد مختلف اسباب سے سائنسی حلقوں میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ عورت اور مرد کے دماغ کے بارے میں ازسرِ نو تحقیق کی جائے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ کیا دونوں کی دماغی بناوٹ میں کوئی فرق ہے۔ اِس تحقیق کا ایک محرک یہ تھا کہ کیاوجہ ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان لَو میریج (love marriage) ہوتی ہے اور پھر بیش تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ دونوں لڑ بھڑ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔
اِس سلسلے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں کے تحت، سائنسی انداز میں مختلف تحقیقات کی گئیں۔ یہاں تک کہ خالص سائنسی طریقِ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایک ناقابلِ تغیر فرق پایا جاتا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طور پر سنگل ٹریک مائنڈ (single track mind) کاحامل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ(multi track mind) رکھتی ہے۔
دونوں صنفوں کے درمیان یہ فرق اتنا عام ہے کہ اس کا مشاہدہ ہر گھر میں کیا جاسکتا ہے۔ ہر گھر جہاں عورت اور مرد دونوں رہتے ہوں وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد کا ذہن کسی ایک پوائنٹ پَر مرتکز رہے گا۔ جب کہ عورت کا یہ حال ہو گا کہ اس کا ذہن ایک ہی وقت میں کئی چیزوں کی طرف متوجہ رہے گا۔ مثلاً مرد اگر ایک کتاب پڑھ رہا ہے تو اس کا سارا دھیان کتاب میں لگا رہے گا۔ حتی کہ پاس کے کمرے میں اگر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو وہ اس کو سننے سے قاصر رہے گا۔ حالاں کہ اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی عورت دوسرے کمرے میں بجنے والی ٹیلی فون کی گھنٹی کو بخوبی طورپر سن لے گی۔
عورت کے ذہن اور مرد کے ذہن کا یہ فطری فرق بتاتا ہے کہ گواہی کے قانون میں دونوں کے درمیان فرق رکھنے کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک واقعہ جس کو عورت اور مرد دونوں دیکھ رہے ہوں اس کو مرد جب دیکھے گا تو وہ اس کو ترکیزی ذہن کے تحت دیکھے گا۔ اِس بنا پر وہ اس قابل ہوگا کہ واقعے کے تمام اَجزاء اس کے حافظے میں محفوظ ہوسکیں۔ اس کے مقابلے میں عورت اپنے ذہن کی فطری ساخت کی بنا پر، غیر ترکیزی انداز میں دیکھے گی۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ واقعے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے ذہن کا دوسرا حصہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اِس بنا پر ایک گواہ عورت کے ساتھ دوسری گواہ عورت رکھی گئی تاکہ دونوں مل کر واقعے کی پوری تصویر بنا سکیں۔
مذکورہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیت زیادہ قابلِ فہم بن جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن میں اِس طرح آئی ہے: واستشہدوا شہیدَین من رجالکم فإن لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان ممن ترضون من الشہداء أن تضلّ إحداہما فتذکّرإحداہما الأخریٰ (یعنی تم اپنے مردوں میں سے دومَردوں کوگواہ بنالو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، اُن لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو۔ تاکہ اگر ایک عورت (گواہی دینے میں بھول) چوک جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دہانی کرادے۔ (البقرہ: ۲۸۲(
قرآن کی مذکورہ آیت میں ضلَّ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ضلّ کے معنی عربی زبان میں اِدھراُدھر بھٹکنے (go astray) کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اِس معاملے میں عَین سائنسی ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مذکورہ آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا کہ—اگر ذہنی بناوٹ کی بنا پر ایک عورت کی توجہ اصل واقعے سے کچھ ہٹ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا کر پہلی عورت کی کمی پوری کردے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن عالمِ الغیب کی طرف سے آئی ہوئی کتاب ہے۔ خدائے عالم الغیب نے اپنے علم کلّی کی بنا پر دونوں صنفوں کے درمیان فطری فرق کو اُس وقت جانا جب کہ عام انسان اِس فرق سے بالکل ناواقف تھا۔ اِس علم کی بنا پر خدا نے گواہی کا مذکورہ اُصول مقرر کیا۔ مذکورہ آیت اِس بات کا ایک علمی ثبوت ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ابدی صداقت کی حامل ہے۔ قرآن خدائے برتر کی کتاب ہے نہ کہ عام معنوں میں کوئی انسانی کتاب۔