خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۴

۱۔ جَین ٹی وی (نئی دہلی) نمائندہ مسٹر انظر نے ۵؍ اکتوبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق روزہ اور رمضان سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ قرآن کے مطابق، قرآن کو رمضان کے مہینے میں اتارا گیا، اور پھر اس ماہِ رمضان میں روزے فرض کیے گیے۔ اس لیے روزہ اور قرآن میں گہری مناسبت ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ مخصوص عبادت میں مشغول ہوکر زیادہ سے زیادہ قرآن کا مطالعہ کیا جائے۔ اور یہ سمجھا جائے کہ قرآن کس قسم کا انسان بنانا چاہتا ہے اور پھر ویسا ہی انسان بننے کے کوشش کی جائے۔

۲۔ ملیالم زبان کے پندرہ روزہ میگزین تھیجس (Thejus) کے نمائندہ مسٹر ایم نوشاد نے اپنے میگزین کے لیے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ۲۶ ؍نومبر ۲۰۰۵ کو لیا گیا۔ انٹرویور ملاپورم(Malappuram) میں رہتے ہیں۔ انٹرویو دہلی میں ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں کے ملکی اور غیر ملکی مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سوچ رد عمل کے تحت بنی ہے۔ مثبت غور وفکر کے تحت ان کی سوچ نہیں بنی۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ ان کی منفی سوچ کو مثبت میں تبدیل کیاجائے۔ اِسی سے ان کی دینی اصلاح ہوگی اور اسی سے ان کے دنیوی مسائل حل ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ رزرویشن مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے، یہ دَور مقابلے کا دَورہے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ مقابلے کا سامنا کرکے آگے بڑھیں۔ رزرویشن کا مطلب یہ ہے کہ مقابلے کا سامنا کیے بغیر ترقی کی جائے۔ مگر موجودہ حالات میں رزرویشن کا فارمولاسرے سے قابل عمل ہی نہیں۔

۳۔ ای۔ ٹی۔وی(نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم نے ۶؍اکتوبر کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا تعلق روزے سے تھا۔ احادیث کے حوالے سے بتایا گیا کہ روزہ صرف بھوک پیاس کانام نہیں بلکہ وہ تقویٰ کی ٹریننگ ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو کہ وہ اپنی خواہشات پر کنٹرول کرتے ہوئے زندگی گذاریں۔ روزہ در اصل اسی چیز کی ایک سالانہ تربیت ہے۔

۴۔ پی۔ ٹی۔ آئی (P.T.I.) کے نمائندہ سرمیت سنگھ نے ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلیفون پر ریکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق اس مسئلے سے تھا کہ حکومت سماج کے پچھڑے طبقوں کی فلاح کے لیے جو اسکیمیں چلاتی ہے، وہ سماج کے لیے کتنی مفید ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا جیسے ملک میں ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہاں کرپشن اتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے کہ ہر سماجی اسکیم کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اسکیم چلانے والوں کو لوٹ کا ایک اور موقع مل جاتا ہے۔ میرے نزدیک اصل کام صرف دو ہے۔ ایک، یہ کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ دوسرے یہ کہ ملک میں بہترین انفراسٹرکچر تیار کیا جائے۔ یہ دونوں کام پرائیویٹ سیکٹر کے تحت انجام دیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری سیکٹر کبھی حقیقی معنوں میں ترقی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

۵۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ نَو بھارت ٹائمس کے نمائندہ مسٹر ندیم اختر نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ۱۱ نومبر ۲۰۰۵ء کوبذریعہ ٹیلی فون یہ انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ مثلاً رزرویشن، وغیرہ۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ انڈیا میں بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ان کا مسئلہ کبھی رزرویشن سے حل نہیں ہوسکتا۔ ان کا مسئلہ صرف داخلی کوشش سے حل ہوگا۔ اور داخلی کوشش کا سب سے زیادہ صحیح آغاز یہ ہے کہ مسلمان تعلیم میں آگے بڑھیں۔ مسلمان ہر جگہ اعلیٰ معیار کے اسکول کھولیں اور دوسروں کے قائم کیے ہوئے اچھے اسکولوں میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں۔ مسلم نوجوانوں میں رزرویشن کے بجائے محنت کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ معاشیات میں لبرل پالیسی اختیار کرنے کے بعد مسلمان معاشی اعتبار سے بہت ترقی کررہے ہیں۔ مگر یہ لوگ اپنے پیسے کا استعمال زیادہ تر نمائشی چیزوں میں کرتے ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پیسے کو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں خرچ کریں، اور اگر ممکن ہو تو کم آمدنی والے بچوں کی تعلیم میں مدد کریں۔ یہی مسلمانوں کے لیے ترقی کی طرف سفر کا آغاز ہے۔

۶۔ دور درشن (نئی دہلی) میں ۳ نومبر ۲۰۰۵ کی صبح کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت، صدر اسلامی مرکز کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس پروگرام کا موضوع تھا: روزہ اور رمضان۔ یہ پروگرام دور درشن کے ہندی شعبے کے تحت کیاگیا۔ اس میں بتایا گیا کہ روزہ محض بھوک پیاس کانام نہیں، بلکہ وہ ایک اخلاقی اور روحانی تربیت کا خدائی کورس ہے:

Roza is a training for a life of patience.

روزے میں افطار پارٹی گویا انٹریکشن پارٹی ہے۔ افطار پارٹی اگر بامقصد انداز میں کی جائے تووہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ اس کے ذریعے یہ موقع ملتا ہے کہ لوگوں کے درمیان مذہب کا صحیح تعارف پیش کیا جائے۔ افطار پارٹی لوگوں کو اسلام کے موضوع پر ڈائیلاگ کا موقع دیتی ہے۔

۷۔ ٹائمس آف انڈیا (نئی دہلی) کی نمائندہ مز حمراء قریشی (Tel: 25646745) نے ۶نومبر ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ مثلاً عید، روزہ، نماز اور جہاد وغیرہ۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ ہندستان میں مسلمانوں کے جو فرقے وارانہ مسائل بتائے جاتے ہیں وہ سب فرضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے لیے، تمام مسلم ملکوں سے بھی زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اصل غلطی مسلم رہنماؤں کی ہے۔ انھوں نے ہندستانی مسلمانوں کے معاملے کو مجارٹی ورسز مائنارٹی کا مسئلہ سمجھا۔ حالاں کہ موجودہ زمانے میں اصل مسئلہ لیاقت اور عدم لیاقت (competance versus incompetance) کاہے۔ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ آپ لیاقت کے ذریعے یہاں سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں اور لیاقت کے بغیرکچھ بھی نہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اصل ضرورت صرف ایک چیز کی ہے اور وہ ہے اعلیٰ تعلیم۔

۸۔ دہلی کے ہندی میگزین سہارا سمے کے نمائندہ مسٹر لئیق احمد رضوی نے ۱۷؍اگست ۲۰۰۵ کوصدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس خبر سے تھا کہ سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے متوازی عدالتی نظام(Parallel Islamic Judiciary) کے خلاف نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیاہے (ٹائمس آف انڈیا ۱۷ اگست ۲۰۰۵)۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیاکہ یہاں کوئی متوازی شرعی عدالت کا وجود نہیں ہے۔ یہ صرف ذاتی نوعیت کے مذہبی معاملات میں علماء کی رائے معلوم کرنا ہے۔ انڈیا میں اس قسم کا نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ ہندو راجاؤں کے زمانے میں خود راجاؤں کی اجازت سے ہُنرمَن ہوا کرتے تھے۔ مغل دور میں قاضی مقرر کیے گیے۔ برٹش دور میں بھی قاضیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آزادی کے بعد دار القضا وغیرہ کے نام سے اس مقصد کے لیے ادارے بنائے گئے۔ یہ کوئی متوازی عدالتی نظام نہ تھا۔ البتہ حال میں کچھ مفتی صاحبان نے اپنی حدکو نہیں سمجھا۔ انھوں نے ایسے معاملات میں فتوے دینا شروع کئے جوفوجداری نوعیت کے تھے۔ اور اس بنا پر پر وہ مفتی صاحبان کے دائرے سے باہر تھے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ یہ مفتی صاحبان اپنی غلطی کو مانیں اور آئندہ سختی کے ساتھ یہ اہتمام کریں کہ وہ فوجداری نوعیت کے معاملات میں کسی بھی قسم کا فتویٰ نہ دیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom